امریکی صدارتی انتخاب میں سوئنگ اسٹیٹس کا کردار

ایگزٹ پولز کے مطابق ریاست وسکونسن  میں سابق نائب صدر کا پلڑا بھاری ہے۔ یہاں پر بائیڈن ٹرمپ سے 11 فیصد آگے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی  جیت کا امکان 41 فیصد جبکہ جوبائیڈن کی جیت کی توقع 52 فیصد بتائی گئی ہے

امریکا میں آج صدارتی انتخاب کے لیے باقاعدہ ووٹنگ ہوگی۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کی نگاہیں اِس انتخاب پر مرکوز ہیں۔ امریکا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ‘سپرپاور’ ہے لیکن چین بھی ایک بڑی طاقت بن کر اُبھرا ہے۔ روس ایک مرتبہ پھر عالمی سیاست میں اپنا مقام بنا رہا۔ لیکن امریکا نے اب بھی دنیا کے تقریباً تمام معاملات میں اپنی مرکزیت برقرار رکھی ہوئی ہے۔

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جوبائیڈن نے بڑے پیمانے پر صدارتی مہم چلائی ہے۔ دونوں امیدوار اپنے مستقبل کے حوالے سے پراُمید نظر آتے ہیں۔

امریکی انتخاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قبل ازوقت ووٹنگ ( ارلی ووٹنگ) کے تحت سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق صدارتی انتخاب 2020 کے لیے ہونے والی ارلی ووٹنگ میں تقریبا 9 کروڑ 20 لاکھ شہری اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرچکے ہیں۔

یہ تعداد 2016 میں ہونے والے کل ووٹنگ کا تقریبا 65 فیصد ہے۔

یو ایس ارلی ووٹنگ (امریکا ارلی ووٹنگ)۔
MGN Online

امریکی عوام کی صدارتی انتخاب میں اس قدر دلچسپی کو دیکھتے ہوئے دونوں بڑے امیدواروں نے ملک بھر میں انتخابی مہم چلاکر دیگر ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

دوسری جانب ‘سوئنگ اسٹیٹس’  امریکی صدارتی انتخاب میں ہمیشہ اہم سمجھی جاتی ہیں۔ یہ ریاستیں امریکی انتخابی نتائج پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے ری پبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں ہی ’سوئنگ اسٹیٹس’  پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔

 ایگزٹ پولز کے مطابق ریاست وسکونسن  میں سابق نائب صدر کا پلڑا بھاری ہے۔ یہاں پر بائیڈن ٹرمپ سے 11 فیصد آگے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی  جیت کا امکان 41 فیصد جبکہ جوبائیڈن کی جیت کی توقع 52 فیصد بتائی گئی ہے۔

انتخابی نقشے پر جوبائیڈن کی کارکردگی نے انہیں 2008 کے بعد سے کسی بھی صدارتی امیدوار کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن پر پہنچا دیا ہے۔ جب عالمی بحران کے دوران براک اوباما 365 الیکٹورل کالج ووٹوں کے ساتھ وائٹ ہاوس کے مکین بنے تھے جو بائیڈن ان کے ساتھ تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی ملک کے بڑے انتخابی میدانوں میں واضح کمزوری نے اُنہیں ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے، جہاں انہیں کامیابی کے لیے 270 الیکٹورل کالج ووٹ درکار ہیں۔  کسی اپ سیٹ کا امکان کم ہے یا رائے شماری میں انتظامی غلطی ہوسکتی ہے۔

یہ تمام عوامل 2016 کے انتخابات سے قبل کی یادوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔

اگر سروے میں آزمائشی 4 ریاستوں میں سے 3 میں جو بائیڈن کو برتری حاصل ہوجائے تو یہ یقینی جیت کے لیے کافی ہوگا۔

اگر انہوں نے فلوریڈا کو ساتھ لے کر چلنا ہے تو انہیں ممکنہ طور پر صرف ایک اور بڑی ریاست میں انتخابی پانسہ پلٹنا ہے جہاں 2016 میں صدارت حاصل کرنے کے لیے ٹرمپ نے کامیابی حاصل کی تھی۔

انتخابی مہم کے آخری دنوں میں جوبائیڈن کو فلوریڈا میں بھی کچھ حد تک ٹرمپ پر برتری ملی۔

ایگزٹ پول کے مطابق بائیڈن 3 فیصد آگے رہے صدر ٹرمپ 44 فیصد جبکہ جوبائیڈن کی کامیابی کا تناسب 47 فیصد رہا۔

CGTN

ایریزونا اور پنسلوانیا میں جوبائیڈن ٹرمپ کے مقابلے میں 6 پوائنٹس سے آگے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی ریاست میں صدر ٹرمپ کی حمایت 44 فیصد سے زیادہ نہیں دیکھی گئی ہے۔

 نیویارک ٹائمز کے ایک سروے کے مطابق مسٹر بائیڈن کو چار اہم ترین سوئنگ اسٹیٹس جن میں وسکونسن، پنسلوانیا، فلوریڈا اور ایریزونا میں ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔

لیکن یہ بات بھی ڈیموکریٹ امیدوار کی کامیابی کی ضمانت نہیں دیتی۔ ہیلری کلنٹن کو بھی 2016 میں تقریبا ہر ایگزیٹ  پول میں ٹرمپ پر واضح برتری حاصل تھی لیکن آخر میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

امریکی انتخابات نقشہ
National popular vote

ریاست ٹیکساس کو بھی اِس صدارتی انتخاب میں اہم سمجھا جارہا ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ یہاں سے ری پبلیکن جماعت کی ہار کی توقع کی جارہی ہے۔

ٹیکساس کو ری پبلیکن گڑھ سمجھا جاتا ہے لیکن اس بار وہ یہاں کمزور دکھائی دے رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے ری پبلیکن جماعت کے سینیٹر ٹیڈ کروز نے صدر ٹرمپ سے فون پر بات چیت کی ۔ کہا کہ ری پبلیکنز کو اس مرتبہ ٹیکساس میں مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ ڈیموکریٹس کو 1976 کے بعد سے اب تک ٹیکساس میں کامیابی نہیں ملی ہے۔

صدارتی انتخابات 1976 میں  جمی کارٹر نے ریپبلکن امیدوار جیرالڈ فورڈ  کو شکست دی تھی ۔ لیکن 1980 میں ری پبلکن امیدوار رونالڈ ریگن نے جمی کارٹر کو شکست دے کر اقتدار سنبھال لیا تھا۔

حالیہ پبلک اور پرائیویٹ پولز کے مطابق اس مرتبہ صدارتی انتخاب میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔ کچھ سرویز میں جوبائیڈن جبکہ کچھ میں ٹرمپ کو برتری حاصل ہے۔

امریکی انتخابات
News18 Creative

ٹیکساس کی آبادی حالیہ دہائیوں میں تیزی سے بڑھی ہے۔

کرونا کے باعث ٹیکساس کی معیشت  کمزور پڑگئی۔ بےروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ۔ اگست میں بےروزگاری  کا تناسب 6.8  فیصد تھا جوکہ ستمبر میں بڑھ کر 8.3  تک جاپہنچا۔

کرونا کے کیسز میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ یہ عوامل دونوں صدارتی امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں اہم ترین ثابت ہوسکتے ہیں  ۔

متعلقہ تحاریر