جنسی طور پر ہراساں کرنا ایک عام بات بن گئی ہے؟

بیمار ذہنیت ہمارے معاشرتی اقدار کو کھوکھلا کررہی ہے۔ سیاست ہو یا کوئی اور میدان ہر جگہ نازیبا جملوں کا استعمال اور جنسی ہراسانی روایت بن چکی ہے

پاکستان کے قانون کے تحت جنسی ہراس کی سزا 3 سال قید یا 5 لاکھ روپے جرمانہ ہے یا پھر دونوں بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں جنسی ہراس یا اخلاقی حد پار کرنے کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

حالیہ دور میں ایک خاتون کا کام کی غرض سے باہر نکلنا مشکل ترین عمل بن گیا ہے۔ اپنے خاندان کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جب ایک خاتون گھر سے نکلتی ہے تو اسے لوگوں کے غیر متوقع رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دفتر پہنچ کر بھی کوئی دن ہراساں کیے جانے کے واقعے کے بغیر گزر جائے اس کی کوئی ضمانت نہیں۔ کام کرنے کی جگہوں یا ورک پلیس پر خواتین کو ہراساں کرنے کا ایک تازہ واقعہ گذشتہ ہفتے پیش آیا جب فیصل بینک کے آفیسر کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا۔ وائرل ویڈیو میں بینک کے ملازم کو خاتون کو انتہائی بے ہودہ انداز میں چھوتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس حوالے سے فیصل بینک کی جانب سے فوری اٹھایا جانے والا اقدام قابل تعریف ہے۔ بینک نے نہ صرف اس معاملے پر فوری ایکشن لیا اور آفیسر کو فارغ کردیا بلکہ ایک بیان جاری کیا جس میں واضح کیا گیا کہ مستقبل میں بھی بینک اس حوالے سے "زیرو ٹالرینس” کی پالیسی پر عمل کرتا رہے گا۔

اس قسم کی بیمار ذہنیت ہمارے معاشرتی اقدار کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کررہی ہے۔ سیاست کے میدان میں نظر دوڑائیں تو یہاں بھی نازیبا جملوں کا استعمال ایک روایت بن چکی ہے۔

 وفاقی وزیر برائے امورکشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے (ن) لیگ کی نائب صدر مریم نواز پر ذاتی حملے کیے۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز خوبصورت ہیں لیکن عوام کے ٹیکس کے پیسے سے کروڑوں روپے کی سرجریاں کرائی ہیں۔

اِس پر اُن کے خلاف نا تو اُن کی جماعت نے کوئی کارروائی کی نا ہی کسی نے اُن کی مذمت کی ہے۔

اسی طرح کچھ عرصہ قبل (ن) لیگی رہنما طلال چوہدری کی تنظیم سازی سوشل میڈیا پر خوب بدنام ہوئی۔ سوشل میڈیا پر زیرگردش خبروں کے مطابق موصوف رات کے ڈھائی بجے عائشہ نامی خاتون کے گھر پہنچے تو ان کے بھائیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب طلال چوہدری سے خاتون کے گھر جانے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ تنظیم سازی کے لیے گئے تھے۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ویڈیو اور آڈیو کال ریکارڈنگ نے بھی سوشل میڈیا پر خوب تہلکہ مچایا۔ جس میں وہ اپنے دفتر میں بیٹھ کر ایک خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کررہے تھے۔ اُس کی ویڈیو بھی منظر عام پر آیی لیکن میمز بنانے سے آگے بات نا بڑھ پائی۔

ایک اور مثال وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کی ہے جنہوں نے 2016ء میں پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کو "ٹریکٹر ٹرالی” کا لقب دیا تھا۔

جواب میں شیریں مزاری نے ٹوئٹ میں کہا کہ اگر خواجہ آصف میں "شرم و حیا” ہوتی تو ان کو معلوم ہوتا کہ کسی خاتون سے کس طرح پیش آتے ہیں۔ لیکن وہ بے شرم اور بے حیا ہیں، جبکہ اتفاق سے میری آواز بھی ان سے بلند ہے۔

بعد ازاں خواجہ آصف نے اسمبلی میں تحریری معافی نامہ جمع کرایا اور شیریں مزاری کا نام لیے بغیر باقاعدہ معذرت بھی کی۔

ہمارے معاشرے میں ہراسگی یا نازیبا جملے صرف مردوں کی جانب سے ہی نہیں بلکہ خواتین بھی اسکا برملا استعمال کرتی نظر آتی ہیں۔

انسانی حقوق کی کارکن ماروی سرمد نے ٹوئٹ میں وزیراعظم عمران خان کی ایک تصویر پوسٹ کی جس میں خاتون اول کے کمرے میں نہ ہونے کے حوالے سے نازیبا جملہ لکھا۔

ایک ایسی خاتون جو خود بھی جنسی ہراسگی کا سامنا کرچکی ہیں، ان کی طرف سے اس قسم کی بات سامنے آنا ہمارے پورے معاشرے کی سوچ کی پستی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
اگر اِسی طرح خواتین سے متعلق جنسی ہراسانی کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو یہ معاملہ قابو سے باہر ہو سکلتا ہے جس کی ذمہ داری شاید کوئی بھی لینے کو تیار نا ہو۔

متعلقہ تحاریر