نیویارک میں پاکستانی طالبہ پر تیزاب سے حملہ
نافیہ فاطمہ پر 17 مارچ کے روز حملہ ہوا تھا جس کے بعد طالبہ 15 روزہ تک ہسپتال میں زیرعلاج تھیں۔
مینی سوٹا پولیس نے سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے قتل کا معاملا ختم ہونے کے فورا بعد ہی امریکہ کے شہر نیویارک میں مقیم میڈیکل کی پاکستانی طالبہ پر نامعلوم افراد نے تیزاب سے حملہ کیا ہے۔
سکیورٹی کیمرے کے ذریعے ریکارڈ کردہ ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستانی طالبہ نافیہ فاطمہ پر نیویارک میں ان کے گھر کے سامنے اس وقت تیزاب پھینکا کیا گیا جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ گاڑی سے اترکرگھر کے اندر جارہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
جارج فلائیڈ کے قتل میں پولیس افسر ڈیرک شاوین مجرم قرار
تیزاب منہ کے اندر جانے کے بعد نافیہ فاطمہ اپنی زندگی تقریباً کھو بیٹھی تھی۔ نافیہ فاطمہ پر 17 مارچ کے روز حملہ ہوا تھا جس کے بعد طالبہ 15 روز تک ہسپتال میں زیرعلاج رہیں۔
نافیہ فاطمہ نے لینسز پہن رکھے تھے جو اس کی آنکھوں میں جل گے تھے۔
ویڈیو میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ حملہ آوار نے ہاتھوں میں دستانے پہنے ہوئے تھے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تیزاب کتنا خطرناک تھا۔
اس واقعے کے فورا بعد ان کے دوستوں نے ایک گو فنڈ می کے نام سے ایک پیج بنایا تھا اور اس پیج کے ذریعہ سے انہوں نے اب تک 4 ہزار ملین ڈالر سے زیادہ کی رقم جمع کرلی ہے جو طالبہ کے طبی اخراجات برداشت کرنے میں معاون ثابت ہوگئی
گوفنڈمی پیج کے مطابق تیزاب نے نافیہ فاطمہ کے چہرے ، آنکھوں ، سینے اور بازوؤں کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔
ناسا کاؤنٹی پولیس ڈپارٹمنٹ نے بتایا کہ مشتبہ شخص 6 فٹ 2 انچ لمبا تھا کیونکہ اس کی پتلی ساخت ہے اور اس نے کالے رنگ کی سویٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔
اس واقعے سے کچھ دن قبل جارج فلائیڈ کے قتل کا معاملہ بھی عدالت میں آیا تھا۔ پولیس افسر ڈیرک شاوین نے ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی گردن پر 8 منٹ 46 سیکنڈز تک گھٹنا ٹیکے رکھا ہوا تھا۔ بالآخر یہ کیس 22 اپریل کو طے پایا تھا اور پولیس اہلکار فلائیڈ کے قتل کے مجرم تھے۔
نافیہ فاطمہ کے گھر والے پولیس اور حکام سے انصاف کے منتظر ہیں۔