بلوچستان کی روایتی چپل "چوُٹ” ہمسایہ ممالک میں بھی مشہور

کوئٹہ کا پرنس روڈ ان چپلوں کی فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں مردوں کے علاوہ خواتین کے لئے بھی درجنوں ڈیزائن کی ہاتھ سے بنائی گئی چپل دستیاب ہیں

بلوچستان کی روایتی چپل "چوُٹ”  جو محض پاپوش نہیں بلکہ ان جوتوں میں بلوچ ثقافت کی جھلک بھی موجودہے۔ بلوچستان میں بسنے والے مختلف بلوچ قبائل کے ناموں پر بھی چپل موجود ہیں جیسے مری کٹ، مینگل کٹ، بگٹی کٹ، زہری کٹ اور رند کٹ شامل ہیں جبکہ دیگر قبائل کے ناموں پر بھی چپل دستیاب ہیں۔

کوئٹہ کا پرنس روڈ ان چپلوں کی فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں مردوں کے علاوہ خواتین کے لئے بھی انواع و اقسام کی خوش رنگ اور درجنوں ڈیزائن کی ہاتھ سے بنائی گئی چپل دستیاب ہیں۔

بلوچ قبائل زیادہ تر پہاڑ یا پہاڑی علاقوں میں آباد ہیں جس کی وجہ سے عام جوتے زیادہ کارآمد نہیں رہتے جبکہ اس کے مقابلے میں بلوچی چپل ناہموار راستوں اور سنگلاخ چٹانوں پر چڑھنے لئے بہترین تصور کی جاتی ہیں، بلوچستان کی ممتاز شخصیات،قبائلی عمائدین،سیاست دان اورعام افراد کا پہلا انتخاب بلوچی چپل ہی ہوتا ہے جس کا سبب اس کا کم قیمت،آرام دہ اور پائیدار ہونا ہے۔

شادی بیاہ ،عید ،کلچرل ڈے یا کوئی بھی قومی یا مذہبی تہوار ہو لوگ بلوچی چپل کو ترجیح دیتے ہیں، بلوچی چپل دنیا بھر میں منفرد شناخت کی حامل ہے جو آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ پائیداری اور منفرد ڈیزائن، مضبوطی کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں بلکہ ہمسایہ ممالک میں بھی مشہور ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عمرکوٹ ثقافتی ریسٹورنٹ کے ملک بھر میں چرچے

ان خوش رنگ چپلوں کی تیاری میں مضبوط دھاگہ،عمدہ چمڑہ، اور تلے کے لئےٹائرز کااستعمال کیا جاتا ہے جس کے سبب برس ہا برس گزر جانے کے باوجود یہ جوتے قابل استعمال رہتے ہیں، مارکیٹ میں اب عمدہ اور باریک کشیدہ کاری والی چپل بھی دستیاب ہیں۔

آج مہنگائی کے دور میں بھی یہ عام آدمی کی جیب پر بھاری نہیں،یہ جوتے ایک ہزار سے دوہزار روپے میں بھی مل جاتے ہیں تاہم مقامی جفت سازوں کی محنت کا ثمر یہ شاہکار منفرد ڈیزائن اور مہنگے میٹریل کے سبب 15سے 20 ہزار روپے میں بھی دستیاب ہیں۔نوریزی کٹ، بالاچ کٹ، مینگل کٹ، شکاری کٹ، سندھی کٹ، براہوی کٹ کے ساتھ ساتھ اور بھی دوسرے کٹ(ڈیزائن) مشہور ہیں جو تیار بھی ملتے ہیں اور پاؤں کی ساخت کے حوالے سے آرڈر پر بھی بنوائے جاسکتے ہیں۔

منفرد ثقافت کی حامل ان چپلوں کی برآمد پر توجہ دی جائے تو نہ صرف مقامی ہنر مندواور اس کاروبار سے منسلک افراد کے حالات کار بہتر ہوسکتے ہیں بلکہ ملک کو کثیر زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔

متعلقہ تحاریر