تیزی سے تباہ ہوتے ہوئے کوئٹہ کے پہاڑ

کوئٹہ کے علاقوں بروری ،خروٹ آباد اور کچلاک میں لگے 25 اسٹون کرشنگ پلانٹس سے نکلنے والی گرد شہر کو آلودہ کررہی ہے

"غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑنا” محاورہ ہے مگر وادی کوئٹہ جسے کبھی لٹل لندن کہا جاتا تھا آج اس شہر کوئٹہ کے پہاڑ خود رنج والم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو وادی کوئٹہ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مختلف پہاڑوں چلتن، تکتو، مُرداراور زرغون کے درمیان واقع خطّہ ہے جو اسے قدرتی قلعے کی شکل دیتےہیں مگر شہر اور گردونواح میں 25 سے زائد قانونی اورغیر قانونی اسٹون کرشنگ پلانٹس ان پہاڑوں کو بڑی بےدردی سے کتر رہے ہیں۔

کوئٹہ دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر

 عالمی ادارہ صحت نے1999میں کوئٹہ کو میکسیکو کے بعد دنیا کا دوسرا  آلودہ ترین شہر قرار دیا تو سوئی ہوئی بلوچستان حکومت جاگی۔

دس ہزار رکشوں کی شہر سے منتقلی، مگر مسئلہ حل نہیں ہوا

شہر سے آلودگی  ختم کرنے کیلئے دس ہزار ٹواسٹروک رکشے چلنے پر پابندی عائد اور  80 سے زائد اینٹ ساز بھٹوں کو شہر سے باہر دشت علاقےمیں منتقل کیا گیامگر 22 برس گذرنے کے باجودکوئٹہ  کوآلودگی سے پاک شہر بنانے کی حکومتی کوششیں ثمرآور ثابت نہ ہوسکیں۔

کوئٹہ میں 25 سٹون کرشنگ پلانٹس

 ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اب بھی کوئٹہ کے علاقوں بروری ،خروٹ آباد اور کچلاک میں لگے 25 اسٹون کرشنگ پلانٹس سے نکلنے والی گرد شہر کو آلودہ کررہی ہے وادی کوئٹہ میں چلنے والی ہواوں کے ساتھ کرش پلانٹس سے پتھر پیستے اور چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کرتے ہوئے پیدا ہونے والی گرد بھی شامل ہوجاتی ہے،جس کی وجہ سے شہر کی فضا  میں دن اور رات  کے اوقات  میں گرد کی دبیز تہہ چھائی رہتی ہے،کئی مرتبہ یہ گرد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ کوئٹہ آنے والے طیاروں کی آمد وروانگی میں بھی خلل واقع ہوتاہے۔

"چلتن” کا مشہور پہاڑ کرشنگ پلانٹس کے نشانے پر

کوئٹہ کے علاقے اختر آباد میں لگے کرش پلانٹ "چلتن” پہاڑکو کاٹ کاٹ کرختم کررہے ہیں جس سے کوئٹہ شہرکی خوب صورتی اور ماحولیات پر نہایت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

ڈھائی کروڑ آمدن کے بدلے ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان

محکمہ معدنیات کے حکام کے مطابق کوئٹہ اور گردونواح میں موجود  25 اسٹون کرشنگ پلانٹس سے سالانہ پچاس ہزار ٹن کرش یابجری پیدا ہوتی ہے۔ جس سے صوبائی حکومت کو ڈھائی کروڑ روپے کی رائلٹی ملتی ہے۔پہاڑوں کو بجری میں تبدیل کی گئی یہ کریش یا بجری کوئٹہ کیے علاؤہ دیگر علاقوں کی ضروریات بھی پوری کرتی ہے۔ ملک جاری ترقیاتی منصوبوں میں بھی اس کرش کو استعمال کیا جاتا ہے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کا اظہار برہمی

بلوچستان ہائی کورٹ نے بھی ان اسٹون کرش پلانٹس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا یہ کہ  پلانٹس آلودگی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ شہر کی قدرتی خوبصورتی کو بھی خراب کررہے ہیں۔ ہائی کورٹ نے ان اسٹون کرشنگ پلانٹس کو شہر سے باہر منتقل کرنے کے احکامات دئیے تھے۔

کرشنگ پلانٹس :کوئٹہ کے باشندے کیا کہتے ہیں؟۔

کوئٹہ کے باشندوں شاہد اللہ اور عظمت اللہ کا نیوز 360 سے گفتگو میں کہنا تھاکہ کوئٹہ کے پہاڑوں کو کاٹ کر بجری میں تبدیل کرنے کے عمل سے شہر کے ماحولیاتی نظام کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہاڑوں کو کاٹ اور  پتھروں کو توڑ کر بجری بنانا، ترقیاتی عمل حوالے سے اہم   ہوسکتا ہے،مگریہی کام  شہری حدود اور آبادی کےقرب و جوار میں  ہوتو اس سے  نہ صرف ماحول کےمسائل  پیدا ہوتے ہیں بلکہ اس کے انسانی صحت پر بھی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

کرشنگ پلانٹس کے باعث خطرناک امراض میں اضافہ

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کے اسٹون کرشنگ پلانٹ کے قریب واقع   بروری روڈ، ہزارہ ٹاؤن اورخروٹ آباد کی آبادیوں کے مکین دمہ  سمیت سینے اور پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل ہسپتال کے طبی ماہر ڈاکٹر محمود شاہوانی  کا نیوز 360 سے گفتگو میں کہنا تھا کہ   اس ہسپتال کے قریب ہی کرش پلانٹس لگے ہوئے ہیں جس سے صحت مند لوگ متاثر ہورہے ہیں ،دمہ ،سی او پی ڈی اور سیلی کوسز کے مریض یہاں زیادہ آرہے ہیں اگر امراض کا بروقت علاج نہ ہو  تو یہ کینسر کی شکل  اختیار کرسکتے ہیں۔

ماحولیاتی ماہرین  کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کوئٹہ کو ماضی کی طرح آلودگی سے پاک شہر بنانا چاہتی ہے تو اس کے گردونواح میں لگے کرشنگ پلانٹس کو آبادی سے دورمنتقل کرنا ہوگا۔

متعلقہ تحاریر