صحافیوں کے مسائل پر کوئی ٹی وی چینل یا اخبار آواز اٹھائے گا؟

ایک ہفتے قبل سی ای جے کے ڈائریکٹر کمال صدیقی نے اپنی نوعیت کی پہلی ریسرچ کا آغاز کیا جس میں صحافیوں کی ذہنی صحت سے متعلق معلومات جمع کی گئیں۔

سینٹر فار ایکسیلینس ان جرنلزم (سی ای جے) کا فلاح و بہبود مرکز 2018 میں قائم ہوا اور تب سے کراچی میں صحافیوں کو کونسلنگ فراہم کررہا ہے۔

ایک ہفتے قبل سی ای جے کے ڈائریکٹر کمال صدیقی نے اپنی نوعیت کی پہلی ریسرچ کا آغاز کیا جس میں صحافیوں کی ذہنی صحت سے متعلق معلومات جمع کی گئیں۔

صحافی عموماً اپنی صحت کو نظرانداز کرتے ہیں جس سے ان کی ذہنی صحت بھی جڑی ہوئی ہے۔

تین سال(2018-2020) پر محیط ریسرچ میں 50 صحافیوں میں سے 30.4 فیصد ناامیدی کا شکار تھے، 25 فیصد کو نیند میں کمی کا سامنا تھا اور ذہنی تناؤ کا شکار تھے۔

23.2 فیصد صحافیوں کا کہنا تھا کہ انہیں غصہ زیادہ آتا ہے، 16.1 فیصد صحافیوں کو گھبراہٹ اور بےچینی ہوتی ہے جبکہ 5.4 فیصد صحافی اعتماد میں کمی کا شکار ہیں۔

سی ای جے کے تحت ہونے والی ریسرچ میں شرکا سے پوچھا گیا کہ تین ایسے اقدامات بتائیے جو کہ میڈیا ہاؤسز یا نیوز رومز کو اپنے ملازمین کی ذہنی صحت کا خیال رکھنے کے لیے اٹھانے چاہئیں؟

اس کے جواب میں صحافیوں نے کہا کہ کام کی ڈیڈلائنز میں نرمی ہونی چاہیے، وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی ہونی چاہیے، ملازمت کے حوالے سے تحفظ ہونا چاہیے کہ انہیں کسی بھی موقع پر دفتر سے نکالا نہیں جائے گا۔

2018 میں موجودہ حکومت نے اقتدار میں آکر سرکاری اشتہارات  میں 50 فیصد سے زائد کمی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں گزشتہ تین برس سے شدید مالی بحران ہے۔

میڈیا مالکان کا کہنا ہے کہ سرکاری اشتہارات میں کٹوتی کی وجہ سے انہیں ملازمین کو تنخواہوں کی بروقت ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک اور نیوز چینل بند ہوگیا، صحافتی تنظیمیں خاموش

یہی وجہ ہے کہ پچھلے تین برس میں کئی ٹی وی چینلز اور اخبارات نے ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا۔

اپنے ساتھی صحافیوں کے ساتھ ایسا سلوک دیکھ کر اس وقت میڈیا سے وابستہ تمام افراد نہایت جانفشانی سے کام کررہے ہیں تاکہ انہیں بھی نوکری سے ہاتھ نہ دھونا پڑ جائیں۔

ریٹنگ کی دوڑ میں سرکرداں ٹی وی چینلز کے نیوز رومز میں صحافی نہایت سخت دباؤ میں کام کرتے ہیں، ہر چینل کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی بھی خبر سب سے پہلے اس کے پاس سے نشر ہو۔

اسی مسابقتی دوڑ میں نیوز رومز میں کام کرنے والے صحافیوں پر سخت دباؤ ہوتا ہے اور اسکرین پر آن ایئر کوئی غلطی نشر ہوجائے تو خوب سرزنش بھی ہوتی ہے۔

متعلقہ تحاریر