کالعدم تنظیم اور حکومتی معاہدے پر جنگ گروپ کی مبہم ادارتی پالیسی
جنگ اخبار نے معاہدے کو 'دانش مندانہ' قرار دیا، دی نیوز نے حکومت کو ٹی ایل پی سے نمٹنے کے طریقہ کار پر غور کا مشورہ دے دیا۔
صحافتی اقدار کے خودساختہ چیمپیئن جنگ جیو میڈیا گروپ کے اپنے ہی اخبارات کی ادارتی پالیسی میں تصادم ہونے لگا، جنگ اخبار نے کالعدم تنظیم سے حکومتی معاہدے کی حمایت، دی نیوز نے مخالفت کردی۔
آج جنگ اخبار کے ادارتی صفحے پر گزشتہ روز حکومت اور کالعدم ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والے معاہدے پر اداریہ لکھا گیا جس کا عنوان تھا ‘دانش مندانہ معاہدہ’۔
ادارئیے میں کہا گیا کہ وزیراعظم عمران خان کی دانشمندی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی کوششوں سے حکومت اور مذہبی سیاسی جماعت کے درمیان معاہدہ ہوگیا، معاہدے کے لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
ایک جگہ جنگ اخبار نے دعویٰ کیا کہ ‘اس اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ معاہدہ فریقین کے تدبر اور مثبت حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔’
ادارئیے کہ آخر میں لکھا گیا ہے کہ ‘حکومت کے اس اقدام کو مبصرین نے اس کی معاملہ فہمی اور ملکی مفاد میں بہتر حکمت عملی قرار دیا ہے۔’
دوسری طرف جنگ جیو گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز میں یہ اعتراض کیا گیا کہ ‘اس معاہدے نے مزید سوال کھڑے کردئیے ہیں کہ آیا کالعدم قرار دی گئی تنظیم کے ساتھ معاہدہ کرنے کی تُک بھی بنتی ہے یا نہیں؟’
اج دی نیوز میں شائع ہونے والے ادارئیے میں لکھا گیا کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ ٹی ایل پی انتہاپسند نظریات رکھتی ہے اور اس نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کے ارادے بھی ظاہر کردئیے ہیں۔ اس قسم کی تنظیم کے ساتھ ڈیل کرنا جس میں حکومت کو بہت کم فائدہ ہو اور تنظیم کو ملکی سیاست میں شامل ہونے کے لیے کھلی چھوٹ مل جائے بہت زیادہ خطرناک ہے۔’
ادارئیے میں مزید لکھا گیا کہ ریاست کو ٹی ایل پی سے نمٹنے کے لیے اپنے طریقہ کار پر دوبارہ غور کرنا چاہیے، کیا وہ واقعی میں ایسے گروپس کو بااختیار بنانا چاہتی ہے جو کہ نفرت انگیز تقاریر میں ملوث رہے ہوں اور ریاست کے خلاف تشدد کی حمایت کرتے ہوں؟
دی نیوز کے ادارئیے کا آخری جملہ یوں تھا کہ ‘عسکریت پسندی کے ساتھ ہمارے تجربات سے اب تک یہ سیکھ لینا چاہیے تھا کہ انتہاپسند گروپس کے ساتھ ہم آہنگی کبھی بھی قابل عمل نہیں ہوتی’۔
قارئین کو دونوں ادارئیوں کے چیدہ چیدہ نکات پڑھ کر اندازہ ہوگیا ہوگا کہ جنگ گروپ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے کس قدر پیشہ ورانہ بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے۔
گروپ کا اردو اخبار کہتا ہے کہ معاہدہ دانش مندانہ اقدام ہے جبکہ انگریزی اخبار کے مطابق حکومت کو کالعدم تنظیم کے ساتھ معاہدہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
اس سلسلے میں صحافتی ادارہ ہونے کے ناطے جنگ گروپ کو اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے اردو اخبار کے ساتھ ہے یا انگریزی اخبار کے الفاظ اس کی پالیسی کا حصہ ہیں۔