وزیراعظم نے ایک بار پھر دنیا کو افغانستان میں ‘انسانی بحران’ سے خبردار کردیا

افغانستان میں 95 فیصد لوگوں کے پاس خوراک نہیں ہے اور اب ہم 23 ملین لوگوں کو بھوک کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں

وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں سنگین صورتحال کے پیش نظر عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فوری سدباب نہیں کیا گیا تو افغانستان میں صورتحال تشویشناک ہوجائے گی۔

وزیراعظم عمران خان  نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ  ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ  میں پہلے بھی افغانستان میں انسانی بحران سے خبردار کرتا رہاہوں اور اب اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک نے بھی  افغانستان میں خوراک کی قلت سے پیدا ہونے والے انسانی بحران سے خبردار کردیا ہے کہ  ، انھوں نے کہا ہے کہ اس مشکل وقت میں پاکستان ہر ممکن ریلیف فراہم کرتا رہے کہ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ  عالمی  برادر ی بھی اس کا نوٹس لے اور عملی اقدامات کرے  یہ  عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ افغان عوام کو درپیش انسانی تباہی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

عالمی ادارہ خوراک نے طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد عالمی بینک کی جانب سے روکے گئے اربوں ڈالر کے فنڈز جاری نہ کرنے پر افغانستان میں بدترین انسان بحران سے خبرار کردیاہے (ڈبلیو ایف پی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے  نے  خبردار کیا ہے کہ  افغانستان کی صورتحال    تشویشناک حد تک خراب ہوچکی ہے “حقیقت میں، ہم اب زمین پر بدترین انسانی بحران کو دیکھ رہے ہیں،  یہ اتنا  تباہ کن ہے جس کا ہم تصور نہیں کر سکتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ آئند موسم سرما تباہ کن ہوگا افغانستان میں پچانوے فیصد لوگوں کے پاس خوراک نہیں ہے اور اب ہم 23 ملین لوگوں کو بھوک کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ “اگلے چھ ماہ تباہ کن ہونے والے ہیں۔

اس سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کینیڈا کی نائب وزیر خارجہ مارٹا مورگن نے ملاقات کی  تھی ، آرمی چیف نے بھی افغانستان کی سنگین صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کے لیے عالمی اتحاد کی  بے حد ضروری ہے ، ملاقات میں افغانستان میں انخلاء کے آپریشن، علاقائی استحکام میں پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر سفارتی تعاون میں مزید بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا عزم کیا گیا۔

واضح ررہے اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ اس سال کے آخر تک افغانستان میں پانچ سال کی عمر تک کے لاکھوں بچوں کو زندگی کے لیے خطرہ بن جانے والی شدید غذائی قلت کے پیش نظر علاج کی ضرورت ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ 33 لاکھ بچے شدید نوعیت کی غذائی قلت کا شکار ہو جائیں گے۔

متعلقہ تحاریر