ماہرین قانون اور جید صحافیوں نے کلبھوشن سے متعلق قانون کو درست قرار دیدیا

سینیٹر مصطفیٰ نواز اور فواد چوہدری میں ٹوئٹر پر نوک جھونک، ریما عمر ،منیب فاروق، مبشر زیدی اور ضرار کھوڑو حکومت کے حق میں بول پڑے

ماہرین قانون اور جید صحافیوں نے کلبھوشن سے متعلق قانون کو درست قرار دے دیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں  بھارتی جاسوس کلبھوشن سے متعلق قانون سازی کے بعد حکومت کو سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا ہے۔ ایوان کے بعد سوشل میڈیا پر بھی وزرا اور اپوزیشن رہنماآمنے سامنے آگئے۔

یہ بھی پڑھیے

بھارتی حکومت نے اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو کو تنہا چھوڑ دیا

پاکستان کے جاسوسی غبارے بھارت پہنچ گئے

 

پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھو کھر نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپنے طویل ٹوئٹر تھریڈ میں لکھا کہ ایبسولوٹلی ناٹ کہنے والے وزیراعظم نے آج کلبھوشن کو این آر آو دے دیا اور ملک کی معاشی خودمختاری مکمل طور پر اغیار کے قدموں میں رکھ دی۔

 

وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری  نے  مصطفیٰ نواز کھوکھر کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ  آپ پارلیمان کے چند پڑھے لکھے لوگوں سے ہیں اور اوپر سے وکیل، عالمی قوانین پر آپ کی دسترس سے بھی انکار نہیں ، ایسی باتیں وہ کرتے ہیں جن کو تنقید کا ہنر نہ آتا ہو ۔آپ جیسے لوگ بھی تُک بازی پر آ جائیں گے تو عقل کی تنقید کون کرے گا؟

 

سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے جواب میں لکھا کہ درست کہا آپ نے ، تنقید کی بنیاد دلیل اور منطق ہی کو ہونا چاہئے ۔ اس قانون کو سینیٹ میں رد کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جو اپیل کاحق ہم کلبھوشن کو دینے جا رہے ہیں وہ ملٹری کورٹ سے سزایافتہ پاکستانی شہریوں کو حاصل نہیں۔ یعنی کہ یہ قانون  فرد واحد کیلیے مخصوص اور ہمارے آئین سے متصادم ہے۔

 

سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے مزید لکھا کہ دوسرا اہم نکتہ اس ضمن میں یہ ہے کہ کئی ممالک آئی سی آئی جی کے فیصلوں کو خاطر میں نہیں لائے۔ ان ممالک کی فہرست میں امریکا، میکسیکو، ہنڈورس ، ہنگری، سلوویکیا، لیبیا، نائیجیریا، کونگو وغیرہ شامل ہیں۔ کوئی ایسی آفت نہ گر پڑتی اگر اس فیصلے کے بارے  میں ہم سست روی کا شکار ہو جاتے۔

 

 

سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے مزید لکھا کہ   عقلی دلائل اور ایک دوسرے کے موقف کو اس پر جانچنا تو وہاں ہوتا ہے جہاں برداشت اور بردباری ہو۔ آپ تو پھر کئی باتیں خندہ پیشانی سے سہ جاتے ہیں مگر اس بات سے آپ بھی بخوبی واقف ہیں کہ آپ کی جماعت میں اس مادہ کی خاصی کمی ہے۔

 

 

جیو نیوز کے سینئر اینکر پرسن  منیب فاروق نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ  حکومت کے طریقہ کار پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ لیکن کلبوشن جیسے انڈین دہشت گرد کو کوئ بھی پاکستانی حکومت این آر او  کیوں دے گی؟ گزارش ہے کہ اس سلسلے میں سیاسی جملہ بازی نہ کریں۔ پاکستان دنیا سے الگ نہیں، یہ ایک عالمی ذمے داری پوری کرنے کا معاملہ ہے۔

 

 

سینئر ماہر قانون اور تجزیہ کار ریما عمر نے   کلبھوشن سے متعلق قانون سازی پر اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ پوائنٹ اسکورنگ کا یہ گھن چکر ختم ہونا چاہیے۔ یہ منصفانہ ٹرائل کے حق جیسے اصولوں   کی خلاف ورزی ہے اور ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جہاں پاکستان  کی بنیادی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی تکمیل بھی غداری قرار دی جاتی ہے۔

 

 

دوسری جانب سینئر صحافی اور اینکرپرسن عاصمہ شیرازی  نے بھی  کلبھوشن سے  متعلق قانون سازی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ سینئر صحافی حامد میر نے بھی عالمی عدالت  انصاف کے فیصلے پر بھارتی اخبار کا اداریہ ٹوئٹ کیا۔

 

 

 

تاہم ڈان نیوز کے پروگرام ذرا ہٹ کے میں   کلبھوشن سے متعلق قانون سازی پر تبصرہ کرتے  میزبانوں نے کہا کہ کلبھوشن کے معاملے پراپوزیشن کی پوائنٹ اسکورنگ تو بنتی ہے کہ انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ کلبھوشن کا نام نہیں لیتے مگر اینکرپرسنز اور صحافیوں کی اس حوالے سے حکومت پر تنقید غلط ہے۔

 

متعلقہ تحاریر