آسٹریلوی پارلیمنٹ کے ایک تہائی ملازمین جنسی ہراسانی کا نشانہ بنے
خواتین ملازمین سے پارلیمنٹ کے سینئر افسران نے زیادتی کی، 456 صفحات پر مشتمل رپورٹ نے آسٹریلیا کے ایوان کو ہلا کر رکھ دیا۔

آسٹریلیا سے آنے والی ایک نئی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹری دفاتر کے لیے کام کرنے والے ہر تین میں سے ایک ملازم جنسی ہراسگی کا نشانہ بن چکا ہے۔
456 صفحات پر مشتمل رپورٹ آسٹریلوی حکومت نے جاری کی ہے جس میں 1000 سے زائد شرکا کے انٹرویوز اور سروے موجود ہیں جو کہ پارلیمنٹ کے موجودہ اور سابق ملازم رہ چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
خیبرپختونخوا میں بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت ہوگی
ناظم جوکھیو قتل کیس، ایک اور ملزم کی عبوری ضمانت منظور
رپورٹ کا عنوان ہے ‘set the standard’ جس میں بتایا گیا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو جنسی ہراسانی اور جنسی حملوں کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔
رپورٹ میں درج ہے کہ 63 فیصد خواتین پارلیمینٹیرینز جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی جبکہ 24 فیصد مرد اراکین پارلیمنٹ بھی جنسی ہراسانی کا شکار رہے۔
اس رپورٹ کے لیے اپنے ذاتی تجربات بیان کرنے والوں میں سے آدھے سے زائد افراد کے مطابق انہیں سینئر افسران کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ رپورٹ جس میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کے اندر جنسی جرائم کی روایت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مارچ کے مہینے میں ہزاروں افراد نے MeToo تحریک کے تحت احتجاج کیا تھا۔
یہ احتجاج اس لیے شروع ہوا تھا کیونکہ پارلیمنٹ کی ایک سابق اسٹاف ممبر برٹنی ہگنز نے انکشاف کیا تھا کہ سنہ 2019 میں اس کے ساتھ ایک وزیر کے دفتر میں جنسی زیادتی کی گئی۔
اس کے بعد چار مزید خواتین سامنے آئیں جنہوں نے بتایا کہ اسی شخص نے ان کے ساتھ بھی زیادتی کی ہے۔
اسی دوران میں جب یہ لرزہ خیز انکشافات ہورہے تھے، آسٹریلیا کے اٹارنی جنرل کرسٹین پورٹر پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے اپنی نوجوانی میں ایک 16 سالہ لڑکی سے زیادتی کی تھی۔
زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی نے پچھلے برس خودکشی کرلی تھی جبکہ پورٹر نے اپنے خلاف الزامات کی تردید کی۔