کامران خان پر بےبنیاد الزامات، اسد طور صحافی کے بجائے چڑی مار نکلے

کامران خان نے اپنی ٹویٹ میں اسٹاک ایکسچینج کے رجحانات شیئر کیے، اسد علی طور نے ان پر ٹیکس چوری کا الزام لگا دیا۔

دنیا نیوز کے اینکرپرسن اور ممتاز صحافی کامران خان نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں آج رونما ہونے والی کچھ تبدیلیوں کو ٹوئٹر پر شیئر کیا، انہوں نے ملکی قرضوں کے حوالے سے بھی بات کی۔

کامران خان کی ٹویٹ کے جواب میں خود ساختہ صحافی اسد علی طور نے ایک وی لاگ بنایا جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کیونکہ کامران خان کی اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری ہے اور وہ ڈوبنے کا خطرہ ہے اس لیے کامران خان ایسی باتیں کر رہے ہیں۔

اسد علی طور نے یہ بھی کہا کہ کامران خان کی ٹیکس چوری کی تفصیلات ایف بی آر نے انٹیلیجنس بیورو اور دیگر اداروں تک پہنچائی ہوئی ہیں۔

اسد علی طور ایک خاتون کو چھیڑتے تھے، جن کے بھائیوں سے پٹائی لگنے کے بعد وہ کچھ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

شفا یوسفزئی اور اسد طور کا معاملہ میشا اور علی ظفر جیسا ہے؟

شفاء یوسفزئی کی کردار کشی پر عورت مارچ کی حامی خاموش

صحافت کے کارزار میں ایک نان لینیئر ایڈیٹر یعنی این ایل ای کی کیا حیثیت ہوتی ہے یہ تو میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہوں گے۔

تو اسد علی طور کو صحافی کے بجائے اگر این ایل ای کہا جائے تو مناسب رہے گا کیونکہ صحافی ہونا بڑا منصب ہے اور اسد طور پچھلے کچھ عرصے تک صرف این ایل ای تھے۔

این ایل ای اسد علی طور کے لیے عرض ہے کہ کامران خان صاحب جتنے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں، اسد طور کی کُل عمر بھی اتنی نہیں ہوگی۔

کامران خان نے 1983 سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز ‘ڈیلی نیوز’ نامی اخبار سے کیا، جب جنگ گروپ نے اپنا انگریزی اخبار ‘دی نیوز’ نکالا تو کامران خان اس کے نیوز انٹیلیجنس یونٹ کے سربراہ بنائے گئے۔

سنہ 1998 سے 2010 تک کامران خان امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایشیا پیسیفک خطے کے واحد نمائندے تھے۔

امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے انہیں امریکہ بلا کر پریس فریڈم ایوارڈ دیا تھا جو کہ کامران خان کے مستند صحافی ہونے کی دلیل کے لیے کافی ہے۔

کامران خان کتنے باخبر صحافی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ 3 نومبر 1996 کو جب محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت برطرف کی گئی تو اس سے صرف ایک دن قبل یکم نومبر کو کامران خان نے دی نیوز میں ایک خبر فائل کی جس کی سرخی یہ تھی، ‘Clock is ticking for a major political change in country’۔

ان کی بے باکی اور بے خوفی کا یہ عالم تھا کہ جس زمانے میں ایم کیو ایم کے خوف سے میڈیا خاموش رہتا تھا، کامران خان نے ایم کیو ایم کے مختلف جرائم کو بےنقاب کیا جس کے نتیجے میں جنگ گروپ کے دفاتر پر حملہ ہوا، آج بھی کامران خان کے سیدھے ہاتھ پر اُس خنجر کا نشان ہے جو کہ انہیں اس حملے میں مارا گیا۔

اسد علی طور صاحب، خیال رکھیے کہ کامران خان کا ہاتھ کسی لڑکی کے بھائی سے پٹ کر زخمی نہیں ہوا تھا بلکہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی وجہ سے ان پر حملہ کیا گیا تھا۔

ابھی اور سنیے، کامران خان آپ کی طرح منہ اٹھا کر ٹی وی پر نہیں بیٹھ گئے تھے بلکہ وہ پرانے اور جید صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں، پرنٹ جرنلزم سے کیریئر کا آغاز کیا، انگریزی صحافت میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھے اور بعد ازاں ٹی وی پروگرام شروع کیا۔

کامران خان کو یہ طرہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ وہ لندن میں مقامی اخبار Times of London جسے Sunday Times بھی کہا جاتا ہے کہ رپورٹر رہ چکے ہیں۔

یہ اعزاز بھی کامران خان کو حاصل ہے کہ انہوں نے پاکستان کی میڈیا تاریخ کا پہلا نیوز پروگرام شروع کیا تھا۔

اس caliber کی شخصیت کے لیے اسد علی طور جیسا شخص بات کرتے ہوئے اچھا نہیں لگتا جو کہ اپنے کیریئر میں تین بار ملازمت سے نکالا جاچکا ہے اور ایک ساتھی خاتون صحافی کی جانب سے ہراسگی کے الزام میں پیشیاں بھگت رہا ہے۔

متعلقہ تحاریر