طالبان نے افغانستان میں خواتین کی جبری شادی پر پابندی عائد کر دی

طالبان کے سربراہ نے اپنے ایک حکم نامے میں کہا ہے کہ خواتین کو 'جائیداد' نہ سمجھا جائے اور انہیں شادی کے لیے رضامندی دی جائے۔

طالبان نے افغانستان میں جبری شادی پر پابندی عائد کرتے ہوئے حکم نامہ جاری کیا ہے، جس کے تحت خواتین کو "جائیداد” نہ سمجھا جائے اور انہیں شادی کے لیے رضامندی دی جائے۔

اس حکم نامے کا اعلان جمعہ کے روز طالبان حکومت کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ نے کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جنوبی شہر قندھار میں مقیم ہیں۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ "دونوں (خواتین اور مرد) کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔”

یہ بھی پڑھیے

میگھن مارکل برطانوی اخبار کے خلاف مقدمہ جیت گئیں

میری پیدائش کے ذمہ دار ڈاکٹر ہیں، برطانوی دوشیزہ نےڈاکٹر کے خلاف مقدمہ جیت لیا

انہوں نے مزید کہا ہے کہ "کوئی بھی زبردستی یا دباؤ کے ذریعے خواتین کو شادی پر مجبور نہیں کر سکتا”۔

طالبان افغانستان جبری شادی پابندی عائد
گوگل

افغانستان میں شادی کی کم سے کم عمر 16 سال مقرر کی گئی تھی تاہم نئے حکم نامے میں شادی کے لیے کم از کم عمر کا ذکر نہیں کیا گیا۔

حکومت کی جانب سے جاری ہونے والےحکم نامے میں کہا گیا ہے کہ "اب ایک بیوہ کو اپنے شوہر کی موت کے 17 ہفتوں بعد دوبارہ شادی کرنے کی اجازت ہوگی اور وہ آزادانہ طور پر اپنے نئے شوہر کا انتخاب کرے گی۔”

بیوہ اور قبائلی روایات

دیرینہ قبائلی روایات میں یہ رواج رہا ہے کہ بیوہ اپنے شوہر کے کسی بھائی یا رشتہ دار سے شادی کرتی تھی۔

طالبان کی قیادت کا کہنا ہے کہ افغان عدالتوں کو حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کریں، خاص طور پر ان بیواؤں کے ساتھ جو وراثت کی تلاش دربدر ہوتی ہیں۔ رواں سال اگست میں برسراقتدار آنے والی طالبان حکومت نے حکومتی وزراء سے کہا ہے کہ وہ پوری آبادی میں خواتین کے حقوق کے بارے میں آگاہی پھیلائیں۔

متعلقہ تحاریر