بھارت پاکستان کیخلاف سائبر وارفیئر کی تیاری میں مصروف

بھارتی لوک سبھا میں وزارت دفاع کے اعلیٰ عہدیداران سے سوال و جواب، پاکستان کیخلاف بڑھتے سائبر جرائم میں واقعی بھارت کا ہاتھ ہے؟

گزشتہ روز بھارت کی لوک سبھا میں وزیر دفاع اور وزارت دفاع کے اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ سائبر وار فیئر کے موضوع پر سوال و جواب کا سیشن منعقد کیا گیا۔

بھارت میں ایک خصوصی منشور کے ذریعے ڈیفنس سائبر ایجنسی اور آرمی، نیوی اور ایئرفورس میں علیحدہ علیحدہ سائبر گروپس قائم کیے گئے تھے تا کہ دفاعی افواج کے انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اثاثوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔

بھارتی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق سنہ 2018 میں بھارتی حکومت اور وزارت دفاع کی جانب سے دفاعی افواج کے سائبر شعبے کو وسعت دینے کے لیے ایک فریم ورک کی منظوری دی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

فیصل رضا عابدی نے عالمی جنگ کی تیاری پکڑ لی

بھارت کا پاکستان کے خلاف ایک اور سازش کا اعتراف

اس فریم ورک کے تحت ڈیفنس سائبر ایجنسی اور فوج، بحریہ، فضائیہ میں الگ الگ سائبر شعبے قائم کیے گئے تاکہ افواج کے انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اثاثوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔

اہم بات یہ ہے کہ پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے اس وقت کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے سنہ 2017 میں ہائبرڈ وارفیئر کا ذکر کیا تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ پاکستان کو اس وقت اور آئندہ ہائبرڈ اور سائبر محاذوں پر بھی خطرات ہوں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کی بات آج سچ ثابت ہو رہی ہے، انہوں نے جس بات کی پیشگوئی چار برس پہلے کردی تھی اس کا اعلان بھارت نے اب کردیا ہے۔

حیرت انگیز طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کبھی بھی پاکستان میں ہائبرڈ یا سائبر وارفیئر کی بات کی جائے تو ایک مخصوص حلقہ یہ کہتا ہے کہ ہماری فوج بلا ضرورت ایک ایسے خطرے سے ڈرانے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ وجود ہی نہیں رکھتا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت سائبر وارفیئر کے لیے ڈیفنس سائبر ایجنسی بنا کر بیٹھا ہوا ہے اور اس نے اپنی تینوں مسلح افواج میں سائبر وارفیئر کے الگ شعبے بھی قائم کردئیے ہیں۔

لوک سبھا میں سائبر وارفیئر پر کیا بات کی گئی یہ تو فی الوقت منظر عام پر نہیں آسکا ہے لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حال ہی میں سربیا میں پاکستانی ایمبیسی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہیک ہوا، اس سے قبل نیشنل بینک آف پاکستان کی ویب سائٹ ہیک کی گئی، ان کارروائیوں کے تانے بانے بھارت سے جا کر ملتے ہیں۔

بھارت اُس جنگ کا آغاز کرچکا ہے جس کے حوالے سے ہمارے یہاں قومی سطح پر کوئی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا اور ہمارے سیاستدان اور سول سوسائٹی ابھی تک اس حوالے سے denial phase میں ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہماری مسلح افواج کو اس خطرے کا پہلے ہی ادراک تھا اور یقینی طور پر وہ اس کے تدارک کے لیے اقدامات بھی کرچکی ہوں گی۔

متعلقہ تحاریر