حکومت نے قرضے لینے کا اپنا ہی بنایا ہوا ریکارڈ توڑ ڈالا
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین میاں زاہد حسین کا کہنا ہے غلط ترجیحات کی وجہ سے تین سال میں غیرملکی قرضوں کا حجم دگنا ہوگیا۔
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم و آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت نے قرضے لینے کا اپنا ہی بنایا ہوا ریکارڈ توڑ ڈالا ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق حکومت نے 21-2020 میں 15.32 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیے جو ایک ریکارڈ ہے جبکہ اس سے ایک سال قبل بھی 12.45 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے لینے کا ریکارڈ قائم کیا گیا تھا۔
میاں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے تین سال میں 35.1 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے زریعے ملک پر عائد غیر ملکی قرضوں کا حجم تقریباً دگنا کر دیا ہے جس سے ملکی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پانچ ماہ کے دوران براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں 12.3فیصد اضافہ
پاکستان کو دیوالیہ کیوں کہا؟ ترجمان وزیر خزانہ کا شبر زیدی سے سوال
میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے مطابق یہ قرضے کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ کم کرنے، زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے، سابقہ قرضوں کی ادائیگی اور واٹر سیکٹر کی ترقی کے لئے حاصل کے گئے ہیں۔ ان قرضوں میں سے پینتیس فیصد پاور پراجیکٹس، تئیس فیصد دیہی ترقی، اٹھارہ فیصد گورننس اور پانچ فیصد تعلیم پر لگائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت کے متعلق منصوبہ بندی ناقص اور ترجیحات انتہائی ناقص ہیں۔ ایسی ترجیحات اپنائی گئی ہیں جو وسائل کے زیاں کا سبب ہیں اور ان ترجیحات نے ملک کو تقریباً دیوالیہ کر دیا ہے اور قرض اتارنے کے لئے مذید قرضے لینے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچاہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگلے سال بھی قرضے لینے کا سلسلہ جاری رہے گا جبکہ روپے کے زوال کی وجہ سے قرضوں کی حجم میں کھربوں روپے کا اضافہ ہوتا رہے گا جو جلد جی ڈی پی کے برابر ہو جائے گا۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت کو چائیے کہ قرضوں پر انحصار کے بجائے کاروباری برادری پر انحصار کرے۔ کاروبار میں حائل رکاوٹیں دور کرے اور متعلقہ اداروں کو کاروبارد وست بنائے تاکہ روزگار، پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہو اور قرضے لینے کے بجائے قرضے اتارنے کے نئے دور کا آغاز کیا جا سکے۔