آڈیو لیک، جیو معاملات سنبھالنا چاہتا ہے، ڈائریکٹر نیوز تاحال خاموش

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب سیاست اور صحافت میں گالم گلوچ آجاتی ہے تو قوموں کی اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے۔

سیاست دان اور صحافیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، اور اس چولی دامن کے ساتھ میں تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے ، مگر تبادلہ صرف سیاست دانوں کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور سینیٹر پرویز رشید کی مبینہ آڈیو لیک میں مریم نواز کو ڈائریکٹر جیو نیوز اور سینئر صحافی نصرف جاوید کے لیے دو باسکٹس کے تحفوں کا ذکر آیا ہے جو مریم نواز کے والد نواز شریف نے بھجوائے تھے۔

سینئر اینکر پرسن نصرت جاوید اس آڈیو لیک کے بعد اپنے خلاف ہونے والی ہرزہ سرائی کا بھرپور انداز میں جواب دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ تحائف وصول کرتے رہتے ہیں اور وہ اس کو معیوب نہیں سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ڈائریکٹر جیو نیوز رانا جواد کی جانب سے کل سے خاموشی چھائی ہوئی ہے، اور ان کی جانب سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے جو معاملے کو مشکوک بنا رہا ہے کہ میڈیا پرسنز سیاست دانوں کے مرضی کے بیان چلانے کے لیے تحائف وصول کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا کیسز میں اضافہ، کراچی میں بازاروں کے اوقات کم کرنے پر غور

یاد رہے کہ جیو نیوز کے ڈائریکٹر رانا جواد نے اپنے ایک ٹوئٹ میں مسلم لیگ ن کے تاحیات سربراہ نواز شریف کی  تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ” وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی قابل بیٹی مریم کو یوتھ پروگرام کے تحت سرکاری فنڈز کی تقسیم کے لیے مقرر کیا ہے۔”

سیاست میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما پرویز رشید ایک بردبار سیاست دان سمجھتے ہیں جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا تاثر ایک آزاد خیال تحمل مزاج سیاست دان کے طور پر دیکھا جاتا ہے ، تاہم گذشتہ روز مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم اور پرویز رشید کی لیک ہونے مبینہ آڈیو میں پرویز رشید میڈیا والوں کو بھونکنے والے کتے کہا رہے ہیں جبکہ گذشتہ سال اکتوبر میں بلاول بھٹو زرداری نے ایک جلسے میں میڈیا والوں کو بھونکنے والے کتوں سے تشبیہہ دی تھی ۔

سینیٹر پرویز رشید اور مریم نواز کی مبینہ آٓڈیو لیک میں گفتگو میں نازیبا کلمات کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔ صحافیوں پر باسکٹس کی صورت میں رشوت لینے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

سوشل میڈیا کی زینت بننے والے مریم نواز کی نئی مبینہ آڈیو لیک میں سینیٹر پرویز رشید جیو نیوز کے سینئر صحافی اور اینکر پرسن حسن نثار اور سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی پر الزامات لگا رہے ہیں۔

مبینہ آڈیو لیک میں نائب صدر مسلم لیگ (ن) اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید صحافیوں اور تجزیہ کاروں سے متعلق نازیبا کلمات بھی ادا کررہے ہیں۔ مریم نواز آڈیو لیک میں پرویز رشید کو ایک میڈیا ہاؤس سے متعلق ہدایات دے رہی تھیں۔

مریم نواز مبینہ آڈیو لیک میں سینئر صحافی اور اینکر پرسن نصرت جاوید اور ڈائریکٹر جیو نیوز کا نام لیتے بغیر باسکٹس دینے کے احکامات دے رہی ہیں۔ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی اور اینکر پرسن  بابر ستار کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔

یاد رہے کہ اس میبنہ آڈیو لیک سےکچھ روز پہلے بھی مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی ایک آڈیو سامنے آئی تھی جس میں وہ کسی صاحب کو اے آر وائی اور سما نیوز چینلز اور دیگر کئی چینلز کے اشتہارات روکنے کے حوالے سے ہدایات دے رہی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کے تاحیات سربراہ نواز شریف کی بیٹی کی مبینہ آڈیو لیک میں واضح طور پر سنا جاسکتا ہے کہ اے آر وائی اور سما نیوز چینل کو حکومت کی جانب سے کوئی اشتہار نہیں دیا جائے گا۔

گذشتہ سال اکتوبر میں کراچی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ عوام میڈیا کی جانب کی جانے والی کردار کشی پر یقین نہ کریں اور نہ ہی پیپلز پارٹی کے خلاف بھوکنے والوں کی باتوں پر یقین کریں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاست میں تحمل اور بردباری ہی اصل جیت ہے، تاہم سیاست دان جہاں ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ کرنے لگے ہیں ویسے ہی وہ صحافی برداری کے خلاف بھی اپنا بغض ناشاشتہ الفاظ کی صورت میں ظاہر کرنے لگے ہیں جو کسی بھی صورت لائق تحسین نہیں ہے ، ایسا نہیں ہے کہ آپ نے کچھ کہا اور پھر ان الفاظ کا اثر ذائل ہو گیا ، بلکہ ان الفاظ کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ جب سیاسی رہنما گالم گلوچ کریں گے تو قوم کی اخلاقیات کا کیا ہوگا۔

پرویز رشید اور مریم نواز کی نئی آڈیو لیک پر تجزیہ دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے ڈائریکٹر نیوز اور نصرت جاوید کا نام لیا کہ ان کے والد صاحب نے دو باسکٹس بھجوائی ہیں نصرت جاوید صاحب اور ڈائریکٹر جیو نیوز کے لیے۔ نصرت جاوید لوگوں کی تنقید کا جواب دے رہے اور کہہ رہے ہیں کہ وہ تو ٹوکریاں وصول کرتے رہتے ہیں مطلب یہ کہ وہ ایک مثبت کردار کے آدمی ہیں جو چیزوں کو نارمل لیتے ہیں۔ مریم نواز نے ڈائریکٹر جیو نیوز کہا ہے مطلب انہوں نے رانا جواد کا نام نہیں لیا مگر سب جانتے ہیں کہ ڈائریکٹر جیو نیوز کون ہے ۔ ان کی جانب سے اس آڈیو کے بعد کوئی ٹوئٹ سامنے نہیں آیا ہے جو معاملے کو مشکوک بنا رہا ہے کہ وہ بھی شائد ؟؟؟؟ لینے والوں میں شامل ہیں۔

متعلقہ تحاریر