کوئٹہ میں خواتین بھی پولیس گردی کا شکار ہوگئیں
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو کنٹرول کرنے کے لیے قانون ساز اداروں کو قانون سازی کرنا ہوگی۔
کوئٹہ میں تین خواتین کو مرد پولیس اہلکاروں کی جانب سے گرفتار کرنے اور پولیس وین میں بٹھاتے وقت تشدد کرنے کے واقعہ پر معطل کردیا گیا، تاہم پتا چلنا چاہیے کہ کون سا قانون ہے جو کہ پولیس اہلکاروں کو خواتین اور مردوں پر تشدد کی اجازت دیتا ہے۔
وزیر اعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے واقعہ کا نوٹس لیا تھا اور اس میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر خواتین کی گرفتاری ضروری تھی تو لیڈی پولیس اہلکاروں کے ذریعہ کارروائی عمل میں لائی جاتی۔ پولیس کا یہ رویہ قطعی طور پر قابل قبول نہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کسٹم حکام کی طور خم بارڈر پر کارروائی، 1 بلین کی منشیات برآمد
پی پی رہنما کی کھاد اسمگلنگ کی کوشش کسانوں نے ناکام بنا دی
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے آئی جی پولیس کو ہدایت کی کہ اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں اور رپورٹ پیش کی جائے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت کے بعد کوئٹہ پولیس کے ایس ایس پی نے قائد آباد پولیس اسٹیشن کےایڈیشنل ایس ایچ او نوید مختار اور مذکورہ اہلکاروں کو معطل کرکے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا ہے کہ تھانہ قائد آباد کے ایس ایچ او کو اہلکاروں سمیت خواتین کو زبردستی پولیس وین میں ڈالتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس اہلکار خواتین کو وین میں ڈالنے سے قبل دھکے دے رہی تھی۔ اور یہ سب لیڈی کانسٹیبل کے بغیر ہورہا تھا ۔ پولیس کی جانب سے زبردستی پر ایک خاتون نے مزاحمت کی تو ایک اہلکار نے اٹھا کر خاتون کو وین میں پٹخ دیا۔
اگر یہ خواتین کسی جرم میں مطلوب بھی تھے تو خواتین کانسٹبلز کی مدد کیوں نہیں لیا گیا؟اگر سب اپنی عدالتیں خود سڑکوں پر لگائے گے تو عدالتوں کو تالے لگا جانی چاہئے۔@AQuddusBizenjo سے اس معاملہ کا فی الفور نوٹس لینے اور ان سب پولیس اہلکاروں کے خلاف انتظامی کاروائی کا مطالبہ کرتی ہوں۔ pic.twitter.com/WSKGVoBdDc
— Jalila Haider جرقہ در ظلمت، انفجار در سکوت (@Advjalila) January 17, 2022
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹے ، ان پر ہاتھ اٹھائے۔ خواتین تو دور کی بات مردوں پر ہاتھ اٹھانے کی کسی قانون میں اجازت نہیں ہے۔ اگر پولیس کے پاس مکمل شواہد ہیں تو مقدمہ قائم کرسکتی ہے مگر کسی پر ہاتھ اٹھانے کا اختیار ان کے پاس پھر بھی نہیں بنتا ہے۔ قانون بنانے والے اداروں کو اس حوالے سے مکمل قانون سازی کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے واقعات معاشرے کے اندر عدم تحفظ کے احساس کو اجاگر کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو لگام نہ دی گئی تو انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ ظلم کو برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے اور اگر ظلم حد سے بڑھ جائے تو ردعمل ضرور آتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ صورتحال کچھ بھی ہو معاشرہ خواتین پر تشدد کو قبول نہیں کرتا ہے۔