امریکہ میں مذہبی اور نسلی امتیاز کا شرمناک واقعہ
فلائٹ اٹینڈنٹ نے سفر کے دوران مسلم خاتون سے بیٹی کا ڈائپر تبدیل کرنے پر بدتمیزی کی، ایئرلائن نے اب تک کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی۔

فرح ناز خان نامی مسلمان خاتون نے برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ میں ایک امریکی شہر سے دوسرے شہر سفر کے دوران پیش آنے والا واقعہ لکھا ہے۔
فرح نے بتایا کہ جہاز کے فرسٹ کلاس سیکشن میں بچے کے ساتھ سفر کرنے والی میں واحد عورت تھی جب ایک فلائٹ اٹینڈنٹ نے بچی کا ڈائپر باتھ روم کے کوڑے دان میں ڈالنے پر مجھ پر غصہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف اس فلائٹ اٹینڈنٹ نے مجھے سخت الفاظ میں برا بھلا کہا بلکہ اس نے مجھے وہ ڈائپر کوڑے دان میں سے باہر نکالنے پر مجبور کیا۔
جب دوسرا فلائٹ اٹینڈنٹ میرے دفاع میں آگے آیا تو اس ملازم نے اس سے بھی بدتمیزی کی۔
اس بےعزتی کے بعد مجھے سارے راستے بچی کے ڈائپر کو اپنے پیروں کے نیچے رکھ کر سفر کرنا پڑا۔
فرح خان نے جہاز سے اترتے ہی اس واقعے کی شکایت کیلیے ایئرلائن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ٹویٹ کی۔
ہیوسٹن ہوٹل میں وہ اپنے شوہر اور بیٹی کے ہمراہ موجود تھیں جب انہیں ایئرلائن کے نمبر سے کال آنا شروع ہوئی۔
انہوں نے فون اٹھایا تو کالر نے کہا کہ وہ ایئرلائن کا نمائندہ ہے اور مجھے بتایا گیا کہ مجھے کہا گیا کہ مجھے جہاز کے باتھ روم میں بیٹی کا ڈائپر ڈالنے کی وجہ سے No-Fly List میں شامل کردیا گیا ہے۔
جب انہوں نے کالر کو چیلنج کیا تو اس نے ذاتی حملے شروع کردیئے، اس نے میری بیٹی اور میرے متعلق نہایت نازیبا جملے کہے۔
اس کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ اس شخص کے پاس جب میرا فون نمبر ہے تو اور ناجانے کیا کیا معلومات اس کو دستیاب ہوں گی اور یہ ناجانے مجھے اور میری فیملی کو ہراساں کرنے کیلیے کس حد تک چلا جائے۔
میرے شوہر نے ایئرلائن کو متعدد بار فون کیا لیکن کسی نے ان کی کال نہیں اٹھائی، بعد ازاں میں نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے پوسٹس لکھنا شروع کیں۔
میں نے دونوں شہروں کی پولیس کو فون کیا، ہیوسٹن میں جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا اور سیاٹل میں جہاں ہم رہتے ہیں کیونکہ مجھے خطرہ تھا کہ ہمارے گھر کا پتہ بھی کسی تک پہنچ سکتا ہے۔
میری ایک پوسٹ ایئرلائن سے وابستہ افسر نے دیکھی اور کارپوریٹ ڈیمیج کنٹرول ڈیپارٹمنٹ سے مجھے فون کیا گیا لیکن انہوں نے نہ تو میرے سوال کے جواب دیئے نا ہی مسئلے کا کوئی حل بتایا۔
اس ابتدائی رابطے کے بعد ایئرلائن نے میری کوئی معنی خیز مدد نہیں کی اور میڈیا نے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کردیا۔
مختلف میڈیا اداروں سے بات کرنے کے بعد بھی متعلقہ حکام نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا، اس سب کے بعد صرف اتنا ہوا کہ مجھے پہلی کال کرنے والے شخص تک رسائی مل گئی جس کا دعویٰ تھا کہ اس نے ‘مذاق’ میں کال کی تھی۔
اس واقعے کو آدھا سال گزر چکا ہے لیکن میں اس سے اس قدر متاثر ہوئی ہوں کہ اب جب کبھی میں کسی عوامی مقام پر بچی کا ڈائپر تبدیل کروں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نا کوئی مجھ پر ضرور چیخے گا۔
جب بھی میں فضائی سفر کرتی ہوں تو خاص طور پر فلائٹ اٹینڈنٹ کو بلا کر پوچھتی ہوں کہ مجھے بیٹی کا ڈائپر کہاں پھینکنا چاہیے۔