اسٹیبلشمنٹ سے مایوس مسلم لیگ (ن) کا پیپلز پارٹی سے رابطہ

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے شہباز شریف نے مستقبل قریب میں سیاسی نقصان سے بچنے کے لیے بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری سے رابطہ کیا ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے چیئرمین پیپلز پارٹی کو ٹیلی فون کیا اور ظہرانے کی دعوت دی جسے بلاول بھٹو زرداری نے بلا حیل و حجت کے قبول کرلیا اور ہفتے کے روز ماڈل ٹاؤن میں ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔

ایسا کیا ہوا ایک رات میں کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کو کھانے پر بلانا پڑگیا، یہ ایسی میٹنگ تھی جس میں مریم نواز بھی موجود تھیں اور حمزہ شہباز بھی حاضر تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملاقات کا اہتمام نواز شریف کی ہدایت پر کیا گیا تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے متعدد بار نواز شریف سے رابطہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

وزیراعلیٰ سندھ نے جماعت اسلامی کے ساتھ معاہدے کی توثیق کردی

شاہ محمود قریشی ملتان کی لڑائی سینیٹ میں لے آئے

اس ملاقات کی جو اہم بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے علاوہ کوئی ٹاپ لیڈرشپ وہاں موجود نہیں سوائے پنجاب اسمبلی سے پی پی کے ایک ایم پی اے حسن مرتضیٰ کے، اور دوسری جانب خواجہ سعد رفیق کے علاوہ کوئی سرکردہ لیڈرشپ اس میٹنگ میں موجود نہیں تھی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے اسٹیبلشمنٹ نے درپردہ گفتگو شروع کی تھی، ایک وقت ایسا بھی آیا جب نواز شریف کے ساتھ معاملات سیٹل ہونے پر آگئے تھے، تاہم وہ بیل منڈھے نہیں چڑھی۔ اس کی بھی کئی ایک وجوہات ہیں۔

تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن وہاں سے مایوس ہوئی اب اس کی لیڈرشپ نے یہ سوچا کہ پی پی نے تو فروری میں لانگ مارچ کی تاریخ دے رکھی ہے اور فروری کی بھی 5 تاریخ ہو گئی ہے۔ 27 تاریخ بھی کون سے دور ہے وہ بھی آجائے گی اور پیپلز پارٹی اپنا موو لے لے گی ۔ اور اگر پیپلز پارٹی لانگ مارچ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو پھر ن لیگ کے پلے کیا رہے گا ، اس لیے ن لیگ کی قیادت نے فوری طور پر بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری سے رابطے کیے اور آج کی میٹنگ رکھ لی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کو کچھ اشارے بھی دے دیئے ہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں پیپلز پارٹی کی بہت ساری باتیں مان بھی لی جائیں گی۔ بنیادی طور پر ن لیگ کو اسٹیبلشمنٹ سے بہت زیادہ مایوسی ہوئی ہے اور وہ پی ٹی آئی کی حکومت کو چلتا کرنے کے لیے دوبارہ پلٹی ہے پیپلز پارٹی کی جانب۔

متعلقہ تحاریر