کیا حزب اختلاف فروری کے آخر میں تحریک عدم اعتماد لاپائے گی؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے چوہدری پرویز الہیٰ اور کامل علی آغا کے بیانات سے واضح پیغام مل رہا ہے کہ وہ ق لیگ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ نہیں دے گی۔
ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں ایک دم سے اضافہ ہوگیا ہے ۔ ملکی سیاست میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے تمام جماعتیں اپنی اپنی شطرنج کی چالیں چلنے میں مصروف ہیں، جبکہ اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور ایم این اے محسن شاہنواز رانجھا نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے فروری کے آخری ہفتے کا ٹائم فریم دے دیا ہے۔
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام لائیو ودھ ندیم ملک میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے ایم این اے محسن شاہنواز رانجھا نے کہا ہے کہ "یہ گفتگو بہت پہلے سے چل رہی تھی ، میاں نواز شریف کی مولانا فضل الرحمان سے بات چیت رہی ، چوہدری شجاعت حسین صاحب سے بھی ان کے رابطے رہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چوہدری صاحبان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ انہوں نے اگلا الیکشن کارکردگی پر لڑنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پی ٹی آئی رہنما عمر امین گنڈاپور کی نااہلی کا فیصلہ معطل
وزیراعظم کے دورہ چین کے بعد پاکستانی طلبہ کیلیے خوشخبری
پروگرام کے میزبان ندیم ملک کے سوال پر محسن شاہنواز رانجھا کا تھا کہ "اس ماہ کے آخری تک تحریک عدم اعتماد آسکتی ہے۔ بہرحال انہوں نے کہا ہے کہ یہ میری رائے ہے فیصلہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نےکرنا ہے۔”
تحریک عدم اعتماد فروری کے آخری ہفتے میں آ جائے گی : محسن رانجھاا
مکمل پروگرام کے لئے لنک دیکھیںhttps://t.co/zgmlFKsnih#NadeemMalikLive #Pakistan #SamaaTv pic.twitter.com/T66OnNpIdT
— Nadeem Malik 🇵🇰 (@nadeemmalik) February 8, 2022
اس وقت ملکی سیاست میں غیرمعمولی تبدیلیاں نظر آرہی ہیں، ن لیگ اور پی پی نے باہمی مشاورت سے جوڑ توڑ کی مہم شروع کردی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی رضامندی مل گئی ، ملک کی دو جماعتوں نے حکومت کے اتحادیوں کو گھیرے کا ہدف طے کرلیا ۔ اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کوچیئرمین پی پی آصف علی زرداری نے چوہدری برادران سے ملاقات کی ہے تو تحریک عدم اعتماد کے لیے مدد کی درخواست کی ہے جبکہ میاں شہباز شریف نے ایم کیو ایم کے وفد سے اس سلسلے میں مدد مانگی ہے۔
حکومت اتحاد کی 180 نشتوں میں سے ق لیگ کی 5 اور ایم کیو ایم کی 7 نشتیں شامل ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے 173 اراکین کی حمایت درکار ہوگی۔
آصف علی زرداری اور چوہدری برادران کے درمیان ہونے والی ملاقات کے تناظر میں ق لیگ کے سینئر رہنما کامل علی آغا نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ”ہمارا معاہدہ کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ ہے ۔ اپوزیشن تو ہمیشہ ہی حکومت کو گرانے کی بات کرتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ابھی نیوٹرل نہیں ہے اگر وہ نیوٹرل ہو گئی تو معاملات خود بخود کسی اور طرف چل پڑتے ہیں۔
گذشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ کے وفد کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتےہوئے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وقت زیادہ نہیں ہے ایم کیو ایم کو فیصلہ کرنا ہوگا، ایم کیو ایم نے فیصلہ نہ کیا تو قوم ان سے پوچھے گی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا ایم کیو ایم سےکہا ہے آج آپ اس حکومت کا حصہ ہیں، تاہم آج کے حلیف کل کے حریف بھی بن جاتے ہیں، آپ پہلے پاکستانی بعد میں حلیف بن کر سوچیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے وفد کے ساتھ تمام ایشوز پر تفصیلی بات چیت ہوئی کہ کس طرح پاکستان میں آج غریب آدمی ایک وقت کی روٹی سے محروم ہے۔
شہباز شریف کا کہنا ہے ان کی پوری کوشش ہو گی کہ حکومت گھر جائے کیونکہ حکومت کو اپنی کی ہوئی کرپشن کا خوف ہونا چاہیے۔
گذشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ کے وفد نے چوہدری برادران سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ ابھی باورچی خانے میں سامان اکٹھا ہورہا ہے ، ابھی پکنا شروع نہیں ہوا ہے۔
چوہدری پرویز الہیٰ کے اس بیان کو لے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صاف پتا چل رہا ہے کہ ق لیگ کسی صورت تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کس ساتھ نہیں دے گی۔ اور کامل علی آغا کے بیان نے جلتی پر تیل چھڑک دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی سی ای سی میٹنگ میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ اپوزیشن کی شورش کا جواب دینے کے لیے وزیراعظم عمران خان عوامی عدالت میں جائیں گے۔ فیصلہ ہوا ہے کہ اگلے ہفتے سے وزیراعظم کی عوامی رابطہ مہم اگلے ہفتے سے شروع ہو جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے عوام کے پاس پی ٹی آئی سے کوئی بہتر آپشن موجود نہیں ہے۔