حزب اختلاف کی تحریک عدم اعتماد ، کب آئے گی کیسے منظور ہو گی کچھ پتا نہیں؟

وفاقی وزیر سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے حزب اختلاف اس بار بھی ناکام ہو گی انشاءاللہ دوبارہ شکست انکا مقدر بنے گی-

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے سب سے بڑے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا ہے مگر یہ عدم اعتماد کی تحریک کیسے منظور کرائی جائے گی اور کب یہ قومی اسمبلی میں پیش کی جائے گی اس بارے میں ابھی کچھ پتا نہیں ہے۔

گذشتہ روز پی ڈی ایم کا اہم اجلاس مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں شہباز شریف کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن میں ہوا ، جس میں تفصیلی بحث کے بعد پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق کیا گیا تاہم اس حوالےسے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا ، جبکہ اس کے قبل مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما محسن شاہنواز رانجھا نے فروری کے آخری ہفتے میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا عندیہ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ملک کے29بڑے شہروں کا61فیصد پانی پینے کے قابل نہ ہونےکاانکشاف

وزرا کی کارکردگی رپورٹ نے شہزاد ارباب کی اہلیت پر سوال اٹھا دیئے

محسن شاہنواز رانجھا نے فروری کے آخری ہفتے میں تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ دیا جب کہ فروری کے ہی آخری ہفتے یعنی 27 فرورری کو بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی کال دے رکھی ہے۔ ایسے صورتحال میں بلاول اپنی ٹیم کو عدم اعتماد کےلیے اکٹھا کریں یا پھر لانگ مارچ کریں گے یہ سوال اہم ہے۔

پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیا ہے ، لیکن ابھی تک حزب اختلاف کو حکومتی اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ تو پھر یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب کیسے کامیاب ہو گی۔؟

پی ڈی ایم کی جانب سے تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام جاری کیا ہے۔ انہوں نےلکھا ہے کہ ” یہ جمہوریت کی فتح ہے کہ حزب اختلاف کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں اب حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حوالے سے متفق ہیں، وزیراعظم عوام کا اعتماد کھوچکے ہیں اور وقت آگیا ہے کہ وہ پارلیمان کا اعتماد بھی کھودیں۔”

پی ڈی ایم کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر سینیٹر فیصل جاوید سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” یہ ہر بار ناکام ہوئے اور انشاءاللہ دوبارہ شکست انکا مقدر بنے گی-  تحریک انصاف کے لیے دونوں صورتوں میں جیت ہے کیونکہ عمران خان حکومت سے باہر اپوزیشن کے لیے زیادہ خطرناک ہونگے-"

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ "فی الحال مقصود چپڑاسی کا جواب دیں – مقصود چپڑاسی کی پریشانی ہے۔’

حکومت پر الزام در الزام در الزام ۔ شہباز شریف صاحب دو دن سےکوشش کررہے ہیں کہ وہ چوہدریوں سے ملاقات کر لیں لیکن چوہدری برادران ان سے ملاقات کرنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کررہےہیں۔

آصف علی زرداری نے چوہدری برادران سے ملاقات کی تو چوہدری برادران نے انہیں کورا سا جواب دے دیا تھا۔

سابق صدر آصف علی زرداری کو چوہدری برادران کی جانب نا میں جواب ملنے پر انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو حکومت کے تحریک میں جان پیدا کرنے کے لیے جلسے جلوسوں پر لگا دیا ہے۔

اب پی ڈی ایم حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے میدان میں آگئی ہے ۔ تحریک عدم اعتماد آہی نہیں سکتی جب تک حکومت کے اتحادی انکے ساتھ مل نہیں جاتے ۔ کیونکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اسمبلی کے اندر 173 ووٹوں کی ضرورت ہے جبکہ حزب اختلاف کے پاس صرف اور صرف 162 نشستیں ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چوہدری برادران نے آصف علی زرداری کا صاف جواب دے دیا ہے ، شہباز شریف سے وہ لوگ ملاقات نہیں کررہے جبکہ شہباز شریف سے ملاقات کے بعد ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے رابطہ کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا تھا مگر چار روز گزر گئے کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا جس کا مطلب صاف ہے کہ وہ لوگ حکومت کے ساتھ ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جتنے مرضی اجلاس کرلیں ، جتنی مرضی ملاقاتیں کرلیں ، آصف علی زرداری صاحب ایک زیرک سیاستدان ہیں اس لیے سائیڈ پر ہو کر بیٹھ گئے جبکہ شہباز شریف صاحب جتنی مرضی دوڑ دھوپ کرلیں ہونا کچھ نہیں ہے۔ ن لیگ کی کوششوں کو اس وقت ایک اور سیٹ بیک یہ آیا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ نے بھی اپنی بیٹھک میں حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مطلب یہ کہ حزب اختلاف کے پاس سوائے خواری اور کچھ نہیں ہے۔

متعلقہ تحاریر