تحریک عدم اعتماد کی تلوار، وزیراعظم جہانگیر ترین سے ملنے کو تیار

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر آصف علی زرداری کا مشورہ پہلے مانا جاتا ، جب پی ڈی ایم بہت زیادہ متحرک تھی ، تو بہت بہتر ہوتا۔ ابھی بھی ذہن آپس  میں پوری طرح سے ملے نہیں ہیں۔

تحریک عدم اعتماد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے حکومت کے خلاف لانگ مارچ نے وزیراعظم عمران خان کو سیاست کی بساط پر نئی کروٹ لینے پر مجبور کردیا ہے۔ وزیراعظم نے وزیر داخلہ شیخ رشید کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے اپنے دیرینہ دوست جہانگیر ترین سے ملنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

نیوز 360 کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک قریبی ساتھی کے ذریعے جہانگیر ترین کی لندن میں خیریت دریافت کی اور واپسی پر ملاقات کرنے کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

بلاول بھٹو کا 38 نکاتی مطالبے کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اعلان جنگ

سندھ کی حکمران پیپلز پارٹی کا اسلام آباد میں براجمان پی ٹی آئی کے خلاف لانگ مارچ

حزب اختلاف جماعتوں اور خاص طور پر پی ڈی ایم کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی کوششوں میں تیزی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے لانگ مارچ کی شروعات نے وزیراعظم عمران خان کو مجبور کردیا ہے کہ وہ جہانگیر ترین سے رابطے پر قائل ہو گئے ہیں۔

وزیر داخلہ شیخ  رشید احمد اپنی دو سے تین پریس کانفرنس میں بلواسطہ اور بلاواسطہ طور پر وزیراعظم عمران خان کو اپنے پرانے ساتھی جہانگیر ترین سے ملاقات کا مشورہ دے چکے ہیں۔

گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے موقع پر جب فواد چوہدری سے صحافی نے سوال کیا تھا کہ کیا وزیراعظم عمران خان ، جہانگیر ترین سے ملاقات کرنے والے ہیں تو اس پر وزیر اطلاعات نے جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کیے رکھی ، مطلب یہ ہے کہ خاموشی نیم رضامندی ہوتی ہے۔

پاکستانی سیاست میں ایمپائر کی انگلی کا بہت بڑا کھیل ہے۔ ذرا سے سیاسی ہلچل ہوتی ہے تو ایمپائر کی انگلی کی بازگشت سنائی دینے لگتی ہے۔

حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے پیپلز پارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری پوری طرح متحرک ہو گئے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے پاکستانی سیاست میں ماضی کے علاوہ کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی ۔ اگر شیخ رشید صاحب کی کوئی پھڑ مارہا ہوں کہ قربانی سے پہلے قربانی ہو جائے گی ، مصدق ملک کی طرح کوئی شرافت سے بات کررہا ہو ، پرڈکشن کررہا ہو کہ یہ ہوجائے وہ ہو جائے گا، پاکستانی سیاست ہر پیشن گوئی کو رد کردیتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فلاں پسپا ہو جائے گا ، کوئی پتا نہیں کہ وہ پسپائی کے پانچ دن کےبعد آئے تو نئی طاقت اور نئے روپ کے ساتھ سامنے آئے۔ وہ اٹھے تو اس کا سیاسی قدکاٹھ اور بڑ گیا ہو۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر آصف علی زرداری کا مشورہ پہلے مانا جاتا ، جب پی ڈی ایم بہت زیادہ متحرک تھی ، تو بہت بہتر ہوتا۔ ابھی بھی ذہن آپس  میں پوری طرح سے ملے نہیں ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اگر تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانا ہے تو مسلم لیگ ن کو پہلے صوبہ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لانی ہوگی اس کے بعد دیگر صوبوں کی جانب دیکھنا ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی حملہ  آور حملہ کرتا ہے تو پہلے سرحدی علاقوں کو فتح کرتا ہے پھر  مرکز کی جانب پیش قدمی کرتا ہے بالکل اسی طرح سے اگر حزب اختلاف کو تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کروانا ہے تو پہلے صوبوں میں کامیابی حاصل کرنا ہو گی اس کے بعد اسلام آباد کی جانب چڑھائی کرنا ہوگی۔

متعلقہ تحاریر