روس یوکرین جنگ، ایل این جی مہنگی ہونے کا خدشہ، پاکستان کیلیے مشکلات

ملک میں بجلی اور صنعتی ضروریات کیلیے ماہانہ 14 ایل این جی کارگوز کی ضرورت ہے، صرف 10 کارگوز برآمد کیے جارہے ہیں۔

روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتی ہوئی جنگ کے بعد پاکستان کے پاس ایل این جی درآمد کرنے کیلیے بہت محدود آپشنز ہیں، ملک میں بجلی اور صنعتی ضروریات کیلیے ایل این جی کے ماہانہ 14 کارگوز کی ضرورت ہے لیکن اس وقت صرف 8 سے 10 کارگو درآمد کیے جارہے ہیں۔

پاکستان قطر سے ہر مہینے 7 سے 8 کارگو درآمد کرتا ہے جس میں 100 ملین کیوبک فیٹ روزانہ کے حساب سے ایل این جی ہوتی ہے جبکہ دو ایسے تاجروں سے خریداری کی جاتی ہے جو کہ مستقل ڈیفالٹر ہیں۔

مارکیٹ کی سخت صورتحال کے پیش نظر یہ تاجر ڈیفالٹرز ہی رہیں گے اور اسلام آباد قطر پر انحصار کرے گا۔

قطر کے ساتھ دو طویل مدتی معاہدوں کے تحت، سرکاری کمپنیز ماہانہ 19 ملین ڈالرز کے کارگو خرید رہی ہیں۔

حال ہی میں پاکستان نے قطر سے 25 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے ایل این جی خریدی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔

پاکستان کو ان طویل مدتی معاہدوں پر 55 ملین ڈالر ادائیگی کرنا پڑ سکتی ہے، ان معاہدوں کی وجہ سے ابھی قطر کے ایل این جی کارگو پر 26 سے 30 ملین ڈالر ادائیگی کرنا ہوتی ہے جس کی مارکیٹ میں قیمت 80 ملین ڈالر ہے۔

یورپ میں گیس کی قیمتیں فی ایم ایم بی ٹی یو 24 سے 40 ڈالر ہوچکی ہیں، یہ قیمتیں گرمی میں گیس کی طلب کی وجہ سے بڑھی ہیں حالانکہ یورپ میں وافر مقدار میں گیس کا ذخیرہ موجود ہے۔

ایل این جی کی قیمت 38 سے 40 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہوسکتی ہے جس کے بعد ایک کارگو 100 ملین ڈالر کا پڑے گا۔

مقامی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو آپ 5 سے 7 کارگوز سے ضرب دیں تو پاکستان کو ہر مہینے تقریباً 350 سے 500 ملین ڈالر کی ایل این جی خریدنا ہوگی۔

رشین نورڈ اسٹریم پائپ لائن پر پابندی کے بعد جرمنی وہاں سے گیس نہیں خرید سکتا، اس بات کا امکان موجود ہے کہ یورپی ممالک مارکیٹ میں دستیاب ایل این جی خریدنے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں گے اور اس میں قطر بھی شامل ہوگا۔

روسی گیس پائپ لائن کا معاملہ بحال بھی ہوجائے تب بھی ایک بات طے ہے کہ یورپی ممالک اپنی توانائی کی درآمدات کیلیے دیگر مواقع تلاش کریں گے۔

روس پر لگنے والی نئی پابندیوں کے بعد پاک اسٹریم پائپ لائن کے آغاز میں  ایک بڑی رکاوٹ ہوگئی ہے۔

2015 کے بعد سے اب تک روس کے ساتھ ہونے والا شیئر ہولڈرز معاہدہ (SHA) کئی بار ملتوی ہوچکا ہے۔

وزیر توانائی حماد اظہر نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ اس سال کے آخر میں طے پا جائے گا، گو کہ پچھلے سال جولائی میں بھی اس کے حتمی مرحلے میں پہنچنے کی نوید سنائی گئی تھی۔

متعلقہ تحاریر