ٹیلیفون یوکرینی صدر کا سب سے موثر ہتھیار بن گیا

صدر وولدیمیر زیلنسکی نے ہفتے کے روز 14 سربراہانِ مملکت سے ٹیلیفون پر گفتگو کی، انہوں نے یوکرینی فوج کیلیے ہتھیار اور روس کیخلاف پابندیوں کا مطالبہ کیا۔

کیف میں محصور یوکرینی صدر وولدیمیر زیلنسکی کی فون کالز نے مغرب کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ روس کے خلاف پابندیاں عائد کی جائیں، پچھلے ہفتے تک یہ پابندیاں لگانا ممکن نہ تھا۔

یورپی ممالک میں یوکرینی عوام کی بہادری کے متعلق بہت اچھی رائے پائی جاتی ہے جس کے بعد زیلنسکی نے بھی مغربی رہنماؤں سے فون کے ذریعے مستقل رابطہ قائم رکھا۔

اس مرحلے پر، وہ پابندیاں جنہیں پچھلے ہفتے تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا اب اخلاقی طور پر بنیادی مسئلہ بن چکی ہیں۔

جس رفتار سے مغرب نئی پابندیوں کیلیے آمادہ ہورہا ہے اس نے بھی وکلا، عہدیداران اور بینکاروں کو پریشان کردیا ہے۔

ایک عہدیدار نے کہا کہ ہم یوکرینی صدر سے بہت پریشان ہیں، وہ شاید یوکرین کو تو نا بچا سکیں نا ہی روس کو بدل سکیں لیکن وہ یورپ کو ضرور تبدیل کر رہے ہیں۔

ہفتے کو زیلنسکی نے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کو فون کیا، اس کے بعد یورپی کمیشن کے صدر، اٹلی کے وزیراعظم، سوئٹرزلینڈ کے صدر، بھارتی وزیراعظم، ترک صدر، آذربائیجانی صدر، ڈچ وزیراعظم، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، جرمن چانسلر، پاپائے روم، چیک وزیراعظم، پولش صدر اور بلآخر رات میں برطانوی وزیراعظم سے بھی بات کی۔

اس سے ایک روز پہلے بھی اتنی ہی تعداد میں فون کالز کیں جن میں اسی بات پر اصرار تھا کہ یوکرین کو ہتھیار دیئے جائیں اور روس پر سخت پابندیاں لگائی جائیں۔

یوکرینی صدر کے ایک قریبی عہدیدار نے کہا کہ وہ بہت سیدھی بات کہتے ہیں، بہت پرجوش اور عملیت پسند ہیں۔

لیکن یہ فون کالز زیلنسکی کیلیے بڑی کارگر ثابت ہوئیں اور انہوں نے جنگ کی کایا پلٹ دی۔

ان فون کالز کا ہی نتیجہ ہے کہ جرمنی نے صرف ایک ہفتے میں پالیسی کے برخلاف فیصلہ کیا اور یوکرین کو ہتھیاروں کی فروخت کی حمایت کی۔

ساتھ ہی ساتھ جرمنی نے روس کو سوئفٹ بینکنگ نیٹ ورک سے بھی نکالنے پر رضامندی ظاہر کی۔

متعلقہ تحاریر