کے الیکٹرک فروخت کرنے سے متعلق تفصیلات خفیہ رکھی گئیں، سابق سیکرٹری نجکاری

ڈان میں شائع ہونے والی خصوصی رپورٹ کے مطابق سابق سرکاری افسر عرفان علی نے کہا کہ ڈیل کو سیکیورٹی کلیئرنس دینے کیلیے معاہدے کی تفصیلات طلب کیں جو کہ فراہم نہیں کی گئیں۔

آج ڈان اخبار کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی خبر کے مطابق 2018 میں ایک سرکاری افسر نے شنگھائی الیکٹرک کمپنی کو کراچی الیکٹرک کی فروخت سے متعلقہ ٹرانزیکشنز دیکھنے کی درخواست کی تھی جسے مسترد کردیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق سابق سیکرٹری نجکاری عرفان علی نے کہا کہ وہ کے الیکٹرک کی چینی کمپنی کو فروخت کرنے کے مخالف نہیں تھے لیکن انہوں نے اس ڈیل کو آگے بڑھانے کیلیے معاہدے کو دیکھنے کا کہا تھا۔

سابق سیکرٹری نجکاری نے ڈان اخبار کو بتایا کہ ‘ابراج’ کمپنی نے انہیں اس بڑی ڈیل کی تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔

ابراج گروپ، کے الیکٹرک کے اپنے حصص ایک ارب 77 کروڑ ڈالر میں شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کر رہی تھی۔

عرفان علی نے جب اس اہم ترین معاہدے پر مزید پیشرفت کیلیے نیشنل سیکیورٹی کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے قبل ڈیل کی دستاویزات دیکھنے کی خواہش کی تو ابراج گروپ نے صاف انکار کردیا۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سابق سیکرٹری نجکاری نے کے الیکٹرک کی فروخت کو روک دیا جس وجہ سے معاہدہ مکمل نہ ہوسکا۔

دسمبر 2021 میں اسٹاک ایکسچینج کی رپورٹ کے مطابق شنگھائی الیکٹرک اب بھی کے الیکٹرک کو خریدنے کا عمل مکمل کرنے کی خواہشمند ہے۔

عرفان علی نے بتایا کہ جب 2018 کے آخر میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے انہیں وزارت توانائی کے پاور ڈویژن کا سیکرٹری تعینات کیا تب انہوں نے پہلی بار حصص کی خریداری کا معاہدہ دیکھا۔

معاہدے کی دستاویزات کے مطابق ابراج گروپ نے حکومت سے اس بات کی ضمانت طلب کی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے الیکٹرک کو گیس فراہم کرتی رہے گی اور حکومت سندھ کراچی واٹر اتھارٹی کے بجلی کے بلز کی ادائیگی کی ضمانت دے گی۔

مئی 2018 میں وزیر نجکاری دانیال عزیز نے کہا تھا کہ قانون کی رو سے حکومت، کراچی الیکٹرک کی فروخت کا معاہدہ نہ دکھائے جانے کی بنیاد پر قومی سلامتی کلیئرنس سرٹیفکیٹ نہیں روک سکتی۔

سابق سیکرٹری نجکاری عرفان علی نے کہا کہ حصص معاہدے کو دیکھے بغیر سیکیورٹی کلیئرنس دینے میں یہ خدشہ تھا کہ حکومت نے ایسی شرائط نا منظور کرلی ہوں کے بارے میں اسے معلوم ہی نا ہو۔

ایک خطرہ یہ بھی تھا کہ کے الیکٹرک اور حکومت کے زیر انتظام کمپنیز کے مابین بقایا جات کی ادائیگی اور وصولی سے متعلق معاملات طے کیے جائیں۔

شاہد خاقان عباسی نے یکم فروری 2021 کو ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ چینی کمپنی کو کے-الیکٹرک کی فروخت کی مخالفت کرنے کیلیے سرکاری حکام پر کیا بیرونی دباؤ ہے؟

اس پر سابق سیکرٹری نجکاری نے کہا کہ کوئی بیرونی دباؤ نہیں تھا، تمام لین دین کو شفاف بنانا مقصد تھا اس لیے معاہدے کی تفصیلات طلب کی تھیں۔

متعلقہ تحاریر