اپوزیشن پھر تقسیم،حکومت کا 10مارچ تک تحریک عدم اعتماد ٹھس ہونے کادعویٰ

مولانا کے 48 گھنٹے میں تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد بلاول بھٹو کا حکومت کو 5 دن کا الٹی میٹم، تحریک عدم اعتماد 10مارچ تک ٹھس ہوجائے گی،سینیٹر فیصل جاوید

وزیراعظم عمران خان  کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن پھر مخمصے کا شکار ہوگئی۔سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان  کے 48 گھنٹے میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے اعلان کے بعد چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نےحکومت کو 5 دن کا الٹی  میٹم دے دیا۔

ادھرتحریک انصاف کے سینیٹر فیصل واوڈا نے 10 مارچ تک تحریک عدم اعتماد ٹھس ہونے کی پیش گوئی کردی۔

یہ بھی پڑھیے

پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کا مقصد وزیراعظم کو ہٹانا نہیں، ذرائع

تحریک عدم اعتماد: حزب اختلاف ملک میں سیاسی خزاں کے خاتمے کیلیے تیار ، بہار کا پتا نہیں

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق درست تاریخ اور دیگر معاملات کو حتمی شکل دینے پر اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر تقسیم ہوگئیں۔

بدھ کو  پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان  نے 48 گھنٹوں میں تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا  جس کے اگلے ہی روز پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے پی ٹی آئی حکومت کو 5 دن کا الٹی میٹم دیا۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ دیگر اپوزیشن جماعتیں اس کے لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد تحریک عدم اعتماد لائے۔گزشتہ روز سابق صدر آصف زرداری یہی بات سمجھانے مولانا فضل الرحمان کے پاس بھی گئے تھے۔

دوسری جانب اپوزیشن تاحال یہ فیصلہ کرنے میں بھی ناکام نظر آتی ہے کہ  تحریک عدم اعتماد پہلے اسپیکر قومی اسمبلی  کیخلاف لائی جائے گی یا وزیراعظم کے خلاف ، کیونکہ مولانا فضل الرحمان کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان علاوہ کسی اپوزیشن رہنما نے تاحال کوئی واضح اعلان نہیں کیا ہےتاہم  پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ پہلی اسپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد لاکر لٹمس ٹیسٹ کرلیا جائے کہ آیااس مرتبہ بھی تو اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ہونے نہیں جارہا تاہم ن لیگ اور مولانا اس تجویز سے کچھ خاص متفق نظر نہیں آتے۔

ادھر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں صوبائی اسمبلیوں کا مستقبل بھی اپوزیشن کے لیے سوالیہ نشان بناہوا ہے۔کیونکہ ملک میں جب بھی مرکز حکومت گری  ہے ساتھ میں صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل ہوئی ہیں۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں بزدار حکومت گرانا  بھی اپوزیشن کیلیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔پھر سوال بھی پیدا ہوگا کہ  پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت  ،کے پی  کے اور بلوچستان کی حکومت کا کیا بنے گا؟

وزیراعظم عمران خان سیاسی پیش رفت پر پرسکون  ہیں  کیونکہ انہوں نے گزشتہ روز ق لیگ کے مرکزی رہنما مونس الٰہی سے ملاقات  کی ہے  جس کے بعد مونس الٰہی نے ٹویٹ کیا کہ مسلم لیگ (ق) اپنے وعدے پورے کرے گی۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے 10مارچ سے پہلےاپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ٹھس ہونے کی پیش گوئی کردی۔

سینیٹر فیصل جاوید نے اپنے ٹوئٹ لکھا کہ انشا اللہ! انکی ناکامی آشکار ہے۔انکی پچھلی سکیمیں بھی ناکام ہوئیں۔اسی طرح یہ اسکیم بھی آخری سانسیں لے رہی ہے۔یہ آپس میں”اکڑ بکڑ” کھیل رہے ہیں،اکڑ بکڑ بمبے بو،مگرنہیں ہورہےانکے پورے سو۔انہوں نے مزید لکھا کہ پی پی کا  مارچ تاریخ کا ناکام ترین مارچ ہے۔

تجزیہ کاروں نے کہا کہ حالیہ پیش رفت نے واضح کر دیا ہے کہ مسلم لیگ ق اپنے 5 ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ  پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی رہے گی۔ تاہم متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور جی ڈی اے کےارکان  سمیت دیگر اتحادی اپنے فیصلے بدل سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جہانگیر ترین گروپ بھی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرسکتا ہے۔

متعلقہ تحاریر