جعلی شناختی کارڈز سے کاروباری لین دین، فیٹف کو کیا جواب دیں؟

چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق نے کہا ہے کہ جعلی شناختی کارڈز پر لین دین کی وجہ سے فیٹف میں حکومتی مذاکرات کاروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق نے کہا ہے کہ جعلی شناختی کارڈز سے کاروباری لین دین کی وجہ سے فیٹف میں حکومتی مذاکرات کاروں کو بات چیت کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔

ڈان اخبار میں آج شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا ہے کہ 35 کھرب روپے کے ٹیکس کیسز جلد نمٹائے جائیں گے کیونکہ عدلیہ نے اس معاملے کو غیرمعمولی انداز میں حل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں تاجروں سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد اشفاق نے کہا کہ جب جعلی شناختی کارڈز کے ذریعے بڑے پیمانے پر کاروبار کیا جائے تو بین الاقوامی برادری کو اپنا موقف پیش کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو جی ڈی پی میں ٹیکس اور اخراجات کے مابین فرق ختم کرنا ہوگا کیونکہ اس وجہ سے بیرونی قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔

ایف بی آر سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 12 فیصد ہے جبکہ اخراجات کا تناسب 20 فیصد ہے۔

اس فرق کو پورا کرنے کیلیے حکومت قرضہ لیتی ہے جو آخر میں ہمیں یا آنے والی نسل کو ہی ادا کرنا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق نے کہا کہ دیگر ممالک میں آمدن پر ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کیا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں بینک ٹرانزیکشن پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس دینا پڑتا ہے کیونکہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔

انہوں نے تاجروں کو بتایا کہ جلد ہی ٹیکسز کی چھوٹ واپس لے لی جائے گی اور دو سال کے دوران ٹیکس کی شرح کو بہتر بنایا جائے گا۔

چیئرمین ایف بی آر نے دعویٰ کیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا ریفنڈ سسٹم دنیا کے اچھے نظاموں میں سے ایک ہے اور سیلز ٹیکس ریفنڈ 72 گھنٹوں میں نمٹایا جا رہا ہے۔

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں نعمان کبیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فنانس سپلیمنٹری ایکٹ 2022 میں ٹیکس لگانے سے معاشی اور صنعتی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ درآمدی مشینری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ واپس لے لی گئی ہے جس سے چھوٹے اور متوسط کاروبار اور برآمدات کو نقصان ہوگا۔

متعلقہ تحاریر