تحریک عدم اعتماد سے قبل ڈی چوک میدان جنگ بنے گا

سیاسی تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ بیساکھیوں کے سہاروں پر چلنے والی پی ٹی آئی کی حکومت حالات کو تصادم کی جانب لے کر جارہی ہے ، 27 مارچ کو اسلام آباد میں جلسہ اس بات کا واضح ثبوت ہے.

تحریک عدم اعتماد کا معاملہ اب آہستہ آہستہ تصادم کی جانب گامزن ہوتا دکھائی دے رہا ہے ، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے کارکنان کو 24 مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کردی جبکہ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے اپنے کارکنوں کی 27 مارچ کو ڈی چوک پہنچنے کا کہا ہے ، ادھر حکمران جماعت پی ٹی آئی نے 27 مارچ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جلسے کا اعلان کردیا ہے۔

گذشتہ روز شہباز شریف کی جانب سے حزب اختلاف کی جماعتوں کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اس بات کا اعلان کیا کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں 24 مارچ کو شاہراہ دستور پر احتجاجی مظاہرہ کریں گی ، کارکنان کے قافلے 23 مارچ کو نکلیں اور 24 مارچ کو شاہراہ دستور اسلام آباد پہنچیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

مریم نواز نے ایک ہفتے کی ٹویٹس میں 4 مرتبہ عمران خان کو ٹیگ کیا

پاکستان تحریک انصاف کا 27 مارچ کو ڈی چوک پر جلسے کا اعلان

یاد رہےکہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے گذشتہ روز پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ "کپتان نے ڈی چوک اسلام آباد جلسے کا حتمی فیصلہ کر لیا…. ان شاءا للہ 27 مارچ کو تاریخ ساز اجتماع ہونے جا رہا ہے۔”

 

اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے تحریک انصاف کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت تصادم کی جانب جانا چاہتی ہے ، اگر پی ٹی آئی 27 مارچ کو اسلام آباد ڈی چوک پر جلسہ کرے گی تو مسلم لیگ (ن) بھی 27 مارچ کو ڈی چوک پر جلسہ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو روکنے کے لیے غیرقانونی کام کرنے جارہی ہے ہم صرف ان کے غیرقانونی کام کو روکنے جارہے ہیں اگر انہوں نے کچھ کیا تو سخت ردعمل آئے گا۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ جیسے ہی اعلان ہو کارکنان اسلام آباد کی جانب چل پڑیں ، پارٹی قیادت کی کال پر ڈی چوک پر عوامی قوت کا مظاہرہ کریں گے۔

اس ساری صورتحال پر تجزیہ دیتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جارہا ہے سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھتا جارہا ہے ، ذرا سے غلط بیان بازی جلتی پر تیل کا کام کرسکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے 27 مارچ کو جلسہ کا اعلان کیا تو دوسری جانب ن لیگ نے بھی کاؤنٹر اٹیک کرتے ہوئے اسی روز اسی جگہ پر جلسے کا اعلان کردیا ہے ، مطلب دونوں بڑی جماعتوں کے کارکنان آمنے سامنے آسکتے ہیں ، جبکہ وزیر داخلہ شیخ رشید نے واضح اعلان کیا ہے کہ میں اسلام آباد کو فوج یا رینجرز کے حوالے بھی کرسکتا ہوں۔ اگر کسی نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو اسے کچل کر رکھ دیا جائے گا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ حکومت کچھ بھی کرسکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے کارکنان کو 24 مارچ کو شاہراہ دستور اسلام آباد پہنچنے کی کال دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہاں سے جانے کا فیصلہ ہم خود کریں گے، مطلب یہ ہے کہ وہ 27 مارچ تک بھی رک سکتے ہیں ، اگر ایسا ہوتا ہے تو تمام قافلے شاہراہ دستور سے گزر کر اسلام آباد پہنچیں گے ، یعنی تصادم کی صورتحال واضح ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ بیساکھیوں کے سہاروں پر چلنے والی پی ٹی آئی کی حکومت حالات کو تصادم کی جانب لے کر جارہی ہے ، 27 مارچ کو اسلام آباد میں جلسہ اس بات کا واضح ثبوت ہے، حکمران جماعت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ووٹنگ سے ایک روز قبل ڈی چوک پر محض اس لیے جلسہ کیا جائے کہ عوامی طاقت کا مظاہرہ  کرنا ہے ، یہ کوئی الیکشن کا سما نہیں ہے کہ عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ، ووٹ عوام سے نہیں قومی اسمبلی کے ایم این ایز سے لینے ہیں ، حکومت کو تصادم سے اجتناب برتتے ہوئے اپنا جلسہ فوری طور پر ملتوی کردینا چاہیے۔ نہیں تو حالات اگر بگڑتے ہیں اس کی تمام تر ذمہ داری حکمران جماعت پر ہوگی۔

متعلقہ تحاریر