اتحادیوں کو حکومتی کشتی سے چھلانگ لگانے کیلیے جادوئی فون کال کا انتظار
اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کرچکے تاہم جادوئی فون کال موصول نہ ہونے کے باعث شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کہیں فیصلے کا اعلان کرتے جادوئی ہی فون کا ل نہ آجائے،ذرائع
تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی اتحادی جماعتیں کئی ہفتے کی سوچ بچار کے باوجود وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے میں شش و پنج میں مبتلا ہیں اور حکومتی کشتی سے چھلانگ لگانے کیلیے جادوئی فون کال کا انتظار کررہے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کی پرکشش پیشکشوں کے باوجود اتحادی جماعتیں بشمول مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹاور بلوچستان عوامی پارٹی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ابھی تک کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
23 مارچ پریڈ اور او آئی سی اجلاس کیلئے سیکیورٹی اقدامات یقینی بنائے جائیں، آرمی چیف
ہم سیکیورٹی دینگے، کوئی حادثہ ہوا تو ذمہ دار اپوزیشن ہوگی، وزیر داخلہ
ذرائع نے نیوز 360 کو بتایا کہ اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کرچکے ہیں تاہم جادوئی فون کال موصول نہ ہونے کے باعث شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کہیں فیصلے کا اعلان کرتے جادوئی ہی فون کا ل نہ آجائے۔اپوزیشن کی بہت سی پرکشش تجاویز کے باوجود اتحادی جماعتیں اپوزیشن کا ساتھ دینے پر بظاہر رضامندی کے باوجود فیصلہ نہیں کرپارہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران میں کسی فریق کا ساتھ دینے کا اشارہ نہ ملنا اتحادیوں کی واحد الجھن ہے ۔ ذرائع نے مزیدبتایا کہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کو واضح طور پر پیغام دیا گیا ہے کہ وہ صرف پانچ نشستوں کے بل پر پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل نہیں کر سکتی۔اگر مسلم لیگ ن اتنی سیٹوں پر انہیں وزارت اعلیٰ دینے پر تیار ہے تو آپ اس سے رجوع کرلیں ۔
گزشتہ روز مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے ایک نجی نیوز چینل ہم نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے بہت دیر کردی،شگاف پڑگیا ہے۔ حکومت کے تمام اتحاديوں کا جھکاؤ سو فيصد اپوزيشن کی طرف ہے۔۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ميں سمجھداری کا 100فيصد فقدان نظر آرہا ہے، ايک ہی شخص گھبرايا ہوا پھر رہا ہے،وزيراعظم اب ايک ايک ووٹ والوں سے ملنے کے ليے جارہے ہيں۔ يہ کام پہلے کر ليتے تو نوبت يہاں تک نہ آتی۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم پی اور بی اے پی کی قومی اسمبلی میں 17 نشستیں ہیں اور اپوزیشن کی حمایت سے ان کی تعداد 179 ہو جائے گی، جب کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی تعداد 179 سے کم ہو کر 162 ہو جائے گی۔