پیٹرو کیمیکل انڈسٹری میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری دستک دینے لگی
پیٹرولیم پالیسی کی تشکیل آخری مراحل میں ہے، اس پالیسی کی منظوری سے ملک میں 3 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری متوقع ہے،وزیرخزانہ،چیئرمین سرمایہ کاری بورڈودیگر حکام کا تاریخ کے پہلے پیٹروکیمیکل سمپوزیم سے خطاب
پیٹرو کیمیکل انڈسٹری میں 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری دستک دینے لگی۔
اسلام آباد میں ملکی تاریخ کے پہلے پیٹرو کیمیکل سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیرخزانہ شوکت ترین،مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، وزیرمملکت اور سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین محمد اظفر احسن،چیئرمین سی پیک اتھارٹی خالد منصور اور دیگر نے خطاب کیا۔
سمپوزیم کا انعقاد کارپوریٹ پاکستان گروپ اور ایسوسی ایشن آف سرٹیفائیڈ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس نے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز، بورڈ آف انویسٹمنٹ، پاکستان بزنس کونسل اور پاکستان کیمیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے تعاون سے کیا۔
یہ بھی پڑھیے
سمپوزیم کا مقصد پیٹرو کیمیکل کی صلاحیت کا اجاگر کرنا، ملک میں پیٹرو کیمیکل انڈسٹری کی ترقی کے حوالے سے سرمایہ کاروں میں دلچسپی پیدا کرنا اور طویل مدتی و شفاف پالیسی وضع کرنے کے لیے حکومت پر زور دینا تھا تاکہ ملک میں پیٹرو کیمیکل انڈسٹری ترقی کرے، روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور درآمدات میں کمی سے زرمبادلہ کے ذخائر کی بچت ہو۔
سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان میں قلیل اور طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان دنیا کی چوتھی بڑی معیشت تھی، لیکن صنعتوں کو قومیانے اور افغان جنگ میں شمولیت کے باعث معیشت پر برا اثر پڑا۔ سال 2008 سے 2018 کے دوران معیشت میں موجود اسٹرکچرل کمزوریوں کو دور نہیں کیا۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی 10 فیصد ہے جو کہ بہت کم ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں فرق بہت بڑا ہے۔ بچتوں کی شرح بہت کم ہے۔ 13 سے 18 فیصد بچت ہے، جوکہ 6 فیصد ترقی کے لیے کافی نہیں۔ پاکستان کی صنعت پیداوار کم ہوئی ہے جب کہ زراعت پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آئی تو 10 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا اور 10 ارب ڈالرز کے قرضے دینا تھے۔ پاکستان نے دوست ملکوں سے مدد مانگی، مگر دوست ملکوں نے توقع کے مطابق مدد نہیں کی، جس کی وجہ سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانا پڑا۔
وزیرخزانہ نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے روپے کی قدر کم ہوئی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ پاکستان کو پائیدار ترقی کی ضرورت ہے، تاکہ ملک میں روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جاسکیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان جب بھی ترقی کرتا ہے تو معاشی بحران پیدا ہوجاتا ہے اور مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بچت کی شرح 25 فیصد نہیں ہوتی، مللک 6 فیصد کی شرح سے ترقی نہیں کرسکتا۔ برآمدات 8 فیصد اور درآمدات 28 فیصد ہیں، یہ ایک بہت بڑا فرق ہے۔ زراعت اور صنعت میں پیداواری صلاحیت کم ترین سطح پر ہے۔
شوکت ترین نے مزید کہا کہ آئندہ پانچ سے سات سال میں ٹیکسوں کی شرح کو 18 سے 20 فیصد پر لانا ہوگی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) صنعت 47 فیصد، جبکہ رواں سال 77 فیصد کی شرح سے ترقی کررہی ہے۔ آئی ٹی سیکٹر کی ایکسپورٹ 50 ارب ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے۔ ہمیں اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایس ایم ایز) پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان میں 50 لاکھ ایس ایم ایز ہیں، مگر ان میں سے چند کو سرمائے تک رسائی ملتی ہے۔
شوکت ترین نے بتایا کہ پاکستان میں 850 ارب یونٹ اضافی بجلی ہے اور آئندہ سال یہ 1000 ارب یونٹ ہوجائے گی، جوکہ ملکی معیشت پر بڑا بوجھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینکاری شعبہ ملکی معیشت میں صحیح طریقے سے اپنا کردار ادا نہیں کررہا۔ بینک صرف صرف 9 شہروں میں فنانسنگ کرتے ہیں۔ بینکاری شعبے کو گھروں کی تعمیری شعبے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسی صنعتیں لگانے کی ضرورت ہے، جس سے درآمدات میں کمی ہو۔ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ سے برآمدی اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ ٹیکسٹائل کے ساتھ آئی ٹی و دیگر شعبوں پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ 35 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے جبکہ آئی ٹی کی برآمدات میں 74 فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیٹروکیمیکل صنعت کے فروغ کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ پاکستان میں پیٹروکیمیکل پلانٹ لگانے کے لیے مقامی مارکیٹ کی دستیابی کے ساتھ ٹیرف، ڈیوٹیز اور ٹیکسز میں کمی کرنا ہوگی۔
وزیرمملکت اور سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین محمد اظفر احسن نے اپنے خطاب میں کہا کہ پیٹرولیم پالیسی کی تشکیل آخری مراحل میں ہے۔ اس پالیسی کی منظوری سے ملک میں 3 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی طلب سالانہ 10 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے، جس کو دیکھتے ہوئے ایک ہمہ جہت پٹرولیم کیمیکل پالیسی اور شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں نئی ریفائنریز اور پٹرولیم کیمیکل پلانٹس لگانا وقت کی ضرورت ہے۔ نیفتھا کریکر لگنے سے درآمدات کی مد میں 50 کروڑ ڈالرز کی بچت ہوگی، جبکہ روزگار کے 50 ہزار مواقع پیدا ہوں گے۔
سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین خالد منصور کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ 3 ارب ڈالرز کی پیٹروکیمیکل مصنوعات درآمد ہوتی ہے اور طلب 5 سے 7 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ ملک میں پیٹرو کیمیکل پلانٹ لگانے کے لیے 4 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2012 میں پٹرولیم پالیسی بنائی گئی تھی۔ پٹرولیم ریفائنری پالیسی پر کام مکمل ہوگیا ہے، جلد اعلان ہوگا۔ پیٹروکیمیکل پلانٹ کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔ پیٹروکیمیکل صنعت کو ٹیرف کا تحفظ، پلانٹ مشینری پر ڈیوٹی کا خاتمہ، ٹیکس چھوٹ، کم لاگت کی سرمایہ کاری، انفرا اسٹرکچر کی سہولت درکار ہے۔ چینی سرمایہ کار بھی پاکستان کے پیٹروکیمیکل صنعت میں سرمایہ لگانا چاہتے ہیں۔
چیئرمین سی پیک اتھارٹی نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی 40 فیصد پیداوار فرنس آئل سے ہوتی ہے جبکہ زیادہ تر ممالک کوئلے سے بجلی بنارہے ہیں۔ تھر میں 15 ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس سے 100 سال تک بجلی بنائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں قدرتی گیس تیزی سے کم ہورہی ہے۔ ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئلے کو گیس میں تبدیل کرنا ہوگا۔ تھر کے کوئلے کو گیس میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ چینی سرمایہ کار اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
او آئی سی سی آئی کے صدر غیاث خان نے کہا کہ پیٹرو کیمیکل پالیسی سے ملک میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ پاکستان میں مختلف پیٹرو کیمیکل مصنوعات استعمال ہورہی ہیں۔ پیٹروکیمیکل مصنوعات کی کھپت کو دیکھتے ہوئے ملک میں ایک بڑا پیٹرو کیمیکل پلانٹ لگانے کی ضرورت ہے۔ پیٹروکیمیکل پلانٹ میں سرمایہ کاری سے ایک ارب ڈالرز درآمدات میں کمی ہوگی۔ اس سلسلے میں چھ کمپنیاں 4 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں۔ ملکی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں اضافی بجلی ہے، اگر ملک میں نئی صنعتیں لگیں گی تو یہ بجلی کم پڑ جائے گی۔ پیٹروکیمیکل صنعت وہی مراعات مانگ رہی ہے جو ٹیکسٹائل کی صنعت کو دی گئی ہیں۔ پیٹرو کیمیکل صنعت کو ٹیرف اور ڈیوٹی پر چھوٹ دی جائے۔ اگر شعبے کو مراعات دی جائیں تو 350 ملین ڈالرز کی بچت ہوگی۔
کوریا کے سفیر پی سنگ پیو کا نے پیٹروکیمیکل سمپوزیم سے خطاب میں کہا کہ جنگ کوریا کی وجہ سے 60 کی دہائی میں کوریا میں غربت تھی۔ ساٹھ کی دہائی سے 1998 تک کوریا کی حکومت نے ترقیاتی پالیسیاں اپنائیں۔ کوریا نے 5 سال کا ترقیاتی منصوبہ بنایا۔ کوریا نے معاشی ترقیاتی منصوبے کو پاکستان سے لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرو کیمیکل صنعت نے کوریا کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کوریا میں پیٹرو کیمیکل صنعت مجموعی صنعت کا 6 فیصد ہے۔ پیٹروکیمیکل صنعت پاکستان کو بھی ترقی دے سکتی ہے۔ پاکستانی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ کوریا سے تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ کوریائی کمپنیاں خیرپختونخواہ میں ڈیم اور پاکستان میں اسمارٹ فون بنارہی ہیں۔پیٹرو کیمیکل سمپوزیم اس عزم کے ساتھ ختم ہوا کہ حکومت اور نجی شعبے پاکستان میں پیٹرو کیمیکل انڈسٹری کے قیام کے لیے مل کر کام کریں گے۔