جہانگیر ترین گروپ نے حکومت کا ساتھ دینے کا اشارہ دے دیا

ترجمان ترین گروپ کے اہم رکن لالہ طاہر رندھاوا کا کہنا ہے کہ حکومت نے "مائنس بزدار" پر اتفاق کرتے ہوئے کچھ وقت مانگا ہے۔

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے منحرف جہانگیر ترین گروپ کے ارکان اس حوالے سے پراعتماد دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کو عہدے سے ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے کامیابی کی صورت میں وفاق کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

جہانگیر ترین گروپ کے ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے مںحرف اراکین کے مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے تاہم انہوں نے بلیک میلنگ کا تاثر ختم کرنے کے لیے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

چیئرمین پیپلز پارٹی کا اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدالت جانے کا اعلان

گلف نیوز کی رپورٹر ثناء جمال پر تنقید بختاور بھٹو کو مہنگی پڑ گئی

وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے وفاقی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت پارٹی کے منحرف لوگوں کے ساتھ صلح کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔

حکومتی ارکان کے ایک سینئر وفد نے جہانگیر ترین گروپ سے ملاقات کی اور ان سے ان کے تحفظات اور مطالبات کی تفصیلات کو طلب کیا ہے۔

ترین گروپ کے ایک اور ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا ہے کہ ” ترین گروپ عثمان بزدار کی برطرفی پر بضد ہے ، انہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب سے جاری سخت رویے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم گروپ نے بیوروکریسی سے متعلق نرم رویے کا اظہار کیا ہے۔”

پنجاب میں تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم نے وزیراعلیٰ بزدار کو ہٹانے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ہم خیال گروپ کچھ دیر انتظار کرے، کیونکہ مطالبے کی فوری منظوری کی صورت میں حزب اختلاف کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ عمران خان مخالفین کی بلیک میلنگ میں آگئے ہیں۔”

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے یہ بھی بتایا ہے کہ نیا وزیر اعلیٰ پی ٹی آئی ہم خیال گروپ سے ہوگا ، پارٹی کے سینئر رہنما نے بھی بتایا ہے کہ ترین گروپ نے حکومتی ٹیم کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس وقت تک پارٹی نہیں چھوڑی گے جبکہ انہیں ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔

بات چیت سے مسائل حل کی جانب جارہے ہیں

دریں اثنا، ترین گروپ کے اہم رکن لالہ طاہر رندھاوا نے کہا کہ کابینہ کے وزیر مراد راس کی قیادت میں ایک حکومتی ٹیم نے ترین گروپ سے ملاقات کی اور انتظامیہ کے ذریعے مسائل کو حل کرنے پر اتفاق کیا۔

لالہ طاہر رندھاوا کا کہنا ہے کہ حکومتی ٹیم نے پارلیمنٹیرینز کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے دو دن کا وقت مانگا تھا اور اب ان کی جانب سے جوابات آنا شروع ہو گئے ہیں، دوسری طرف ڈپٹی کمشنرز، ضلعی پولیس افسران اور دیگر سرکاری اہلکار ترین گروپ کے ممبران سے رابطے کررہے ہیں ان کے مسائل حل کررہے ہیں۔

لالہ طاہر رندھاوا نے بتایا ہے کہ صوبائی وزیر اجمل چیمہ کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کردی گئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "حکومتی ٹیم مسائل کے حل کی رپورٹ کے ساتھ بدھ کے روز ترین گروپ بدھ کے ساتھ حتمی ملاقات کرے گی۔”

لالہ طاہر رندھاوا نے زور دے کر بتایا ہے کہ ترین گروپ کا بنیادی مطالبہ "مائنس بزدار” تھا کیونکہ موجودہ وزیر اعلیٰ نے صوبے میں گورننس کا نظام تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔

ایم پی اے لالہ طاہر رندھاوا نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ "ایم پی اے کے ایک اور بڑے گروپ نے بھی ترین گروپ سے رابطہ کیا ہے اور عثمان بزدار کو پنجاب سے رخصت کرنے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔”

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے ترین گروپ کو آگاہ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی جگہ پارٹی کے اندر ایک اور سینئر رہنما کو تبدیل کیا جائے گا۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے حلقوں میں چار نام گردش کرنے لگے ہیں جن میں صوبائی وزیر راجہ یاسر ہمایوں، مراد راس، میاں اسلم اقبال اور آصف نکئی ہیں۔

ترین گروپ کے رکن نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ان کے 17 میں سے 13 ایم پی اے آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے تھے اور بعد میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔

ایم پی اے لالہ محمد طاہر رندھاوا نے ڈان نیوز کو مزید بتایا ہے کہ "اگر ترین گروپ نے مرکز میں وزیر اعظم عمران خان اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ بزدار کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تو بھی حکومت انہیں ڈی سیٹ نہیں کر سکے گی کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب نہیں ہوئے تھے۔”

ترین گروپ اور دیگر لامیکر کی پارٹی

دوسری جانب جہانگیر ترین کے ترجمان عون چوہدری نے کہا کہ تقریباً آٹھ ایم این ایز کا گروپ ان کے ساتھ کھڑا ہے جوکہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں حکومت کی حمایت یا مخالفت میں فیصلہ کرے گا۔

عون چوہدری کا کہنا ہے کہ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کئی ایم این ایز حکومتی پارٹی کے خلاف کھڑے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ وزیر اعظم خان نے جہانگیر ترین کو سائڈ لائن کردیا تھا جنہوں نے ہر مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دیا تھا۔

ترجمان جہانگیر ترین عون چوہدری نے کہا ہے کہ ” جہانگیر ترین مشکل وقت میں وزیر اعظم کی مدد کرتے رہے اور تمام پارٹی پارلیمنٹیرینز کے مسائل حل کرتے تھے۔”

ایک سوال کے جواب میں کہ کیا جہانگیر ترین مسلم لیگ ن کے ساتھ کوئی ڈیل کر سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ اپنے لیڈر کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جہانگیر ترین جو بھی فیصلہ کریں گے، ان کا پورا گروپ ان کے فیصلے کی تائید کرے گا۔

متعلقہ تحاریر