50 سال میں مرغی کی جسامت میں 364 فیصد اضافہ، امریکی تحقیق

ٹوئٹر صارف نے بتایا کہ ہم جو مرغیاں کھارہے ہیں یہ پہلے اتنی موٹی نہیں تھیں، امریکا میں سالانہ 30 ارب ڈالر کی مرغی کھائی جاتی ہے۔

ایک ٹوئٹر صارف نے بتایا ہے کہ ہم جو مرغیاں کھا رہے ہیں ان کی جسامت پچھلے 50 سالوں میں 364 فیصد بڑھ چکی ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس کے نقصانات سے آگاہ کیا ہے۔

امریکا میں مرغی مرغوب غذاؤں میں سے ایک ہے، ہر سال 11 ارب 79 کروڑ 34 لاکھ ایک ہزار 620  کلو مرغی امریکا میں کھائی جاتی ہے۔

امریکی شہری 30 ارب ڈالر سالانہ کی برائیلر مرغی کھا جاتے ہیں، اس وقت امریکا میں 518 ملین مرغیاں ہیں۔

ایک امریکی شہری اکیلا ہی سالانہ 29 کلو مرغی کھاتا ہے۔ ٹوئٹر صارف کا کہنا ہے کہ جو مرغی ہم کھاتے ہیں یہ اُس مرغی سے مختلف ہے جو کہ ہمارے دادا دادی اپنے زمانے میں کھاتے تھے۔

آج کی مرغی خشک اور بےذائقہ ہوتی ہے، آپ کو اسے تلنا پڑتا ہے، یا ساسز میں میرینیٹ کرنا پڑتا ہے اور مزید اشیا ملانا پڑتی ہیں تاکہ ذائقہ آسکے۔

1960 کی دہائی میں مرغی کو ایک ذائقے دار غذا سمجھا جاتا تھا۔

سوال یہ ہے کہ ہم یہ مرغی کب سے استعمال کرنے لگے جو کہ موٹی، بےذائقہ اور گندی ہوتی ہے اور اسے ہارمونز دیئے جاتے ہیں؟

ٹوئٹر صارف نے بتایا کہ 1940 کی دہائی میں مرغی مہنگی ہوتی تھی اور اسے بہت خاص مواقعوں پر پکایا جاتا تھا۔

1948 میں ایک اوسط مرغی کی قیمت 3 ڈالر تھی، جنگ عظیم دوئم کے دوران سرخ گوشت ذخیرہ کیا جانے لگا تو نتیجتاً امریکیوں نے دوگنی مقدار میں مرغی کھانی شروع کردی۔

اس زمانے میں امریکا کے نیشنل پولٹری ڈائریکٹر کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ مرغی کی بڑھتی مانگ میں کمی ہوجائے گی اور ‘اے اینڈ پی’ کی پولٹری سیلز کو دھچکا لگے گا۔

اے اینڈ پی اس وقت امریکا کی سب سے بڑی سپر مارکیٹ تھی، انہوں نے اس موقع سے دو فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

پہلا یہ کہ مستقبل کی پیداوار کیلیے کم لاگت والا پرندہ تیار کیا جائے۔

دوسرا یہ کہ کمپنی کی تشہیر کی جائے اور اپنی برینڈ کی درست مارکیٹنگ کی جائے۔

1940 کی دہائی میں ایک عام برائیلر مرغی کا وزن سوا کلو تک ہوتا تھا اور اسے اس وزن تک پہنچنے میں کچھ مہینے لگتے تھے۔

اے اینڈ پی کے ڈائریکٹر پیئرس نے اس مسئلے کا حل نکالا، انہوں نے ایک مقابلہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس کا عنوان تھا ‘کل کی مرغی کا مقابلہ’۔

اس مقابلے میں حصہ لینے والوں کے درمیان یہ مقابلہ ہونا تھا کہ قومی سطح پر کم وقت میں سب سے زیادہ موٹی مرغی کس امیدوار کی نکلتی ہے۔

مقابلے کے سادہ سے اصول تھے، ہر امیدوار کو اپنی خاص نسل کی مرغی کو 12 ہفتے تک پالنا تھا۔

اس کے بعد مرغیوں کو ذبح کیا جائے گا اور ان کا وزن دیکھا جائے گا۔

ججز نے جسامت، کھال، سینے کی چوڑائی اور اوسط وزن کو اچھی مرغی کا پیمانہ بنایا لیکن ذائقے کو شمار نہیں کیا۔

اس مقابلے میں دو نسل کی مرغیاں چھائی رہیں، ایک آربر ایکڑ وائٹ راکس کی مرغیاں۔

دوسری وینٹریس ہیچری کی مرغیاں تھیں جنہوں نے تمام مرغیوں کو جسامت، وزن اور چوڑائی میں پیچھے چھوڑ دیا۔

ٹوئٹر صارف نے بتایا کہ ہم اب تک ‘مستقل کی مرغیاں’ نامی مقابلے میں حصہ لینے والی مرغیاں کھا رہے ہیں۔

ایک عام برائیلر مرغی 35 دن میں بڑی ہوجاتی ہے، 1948 میں برائیلر مرغی کو بڑا ہونے میں 70 دن لگتے تھے۔

آج مرغی کا اوسط وزن بھی پہلے کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے اور ایک عام مرغی تقریباً 3 کلو کی ہوتی ہے۔

آج مرغیاں اتنی موٹی ہوچکی ہیں کہ وہ چلتے ہوئے لڑکھڑاتی ہیں، چھوٹے قدم لیتی ہیں۔

ان کی ٹانگیں چھوٹی ہیں اور سینے بہت بڑے ہیں جس سے پرندے کی جسامت بےترتیب ہوگئی ہے۔

ہم نے جینیاتی تبدیلیاں کر کے ایسا پرندہ بنایا ہے جو کہ موٹے سے موٹا ہوتا جائے گا۔

ٹوئٹر صارف کا کہنا تھا کہ ہم دراصل بہت بڑے سائز کے چوزے کھا رہے ہیں جنہیں جینیاتی تبدیلی کر کے موٹا کر دیا گیا ہے لیکن وہ مرغی نہیں چوزے ہیں۔

صدیوں سے یہ بات ایک حقیقت تھی کہ ایک بڑی عمر کا پرندہ زیادہ اچھا ذائقہ دیتا ہے۔

1900 کے اوائل میں مرغیوں کو کم از کم چار ماہ کی عمر میں کاٹ کر خوراک بنایا جاتا تھا۔

آج برائیلر مرغیاں 47 دنوں میں ہی ذبح کی جارہی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مرغیوں کو جو غذا اب دی جارہی ہے وہ اس سے بہت مختلف ہے جو کہ انہیں پہلے دی جاتی تھی۔

مرغیاں بہت سی اشیا کھایا کرتی تھیں جیسا کہ گھاس اور کیڑے، چوہے، مینڈک وغیرہ، انہیں فارم میں چھوڑا جاتا تھا تاکہ وہ فارم کو کیڑے مکوڑوں سے صاف رکھیں۔

اس کے برعکس اب مرغیوں کو مکئی اور سویا کھلایا جارہا ہے تاکہ انہیں جلد از جلد موٹا کیا جاسکے۔

متعلقہ تحاریر