ایرانی خواتین کی مزاحمت رنگ لے آئی ، ایران میں مورلیٹی پولیس کا ڈیپارٹمنٹ ختم

رواں سال ستمبر میں مورلیٹی پولیس (اخلاقی پولیس) کے ہاتھوں کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں خواتین کے حق میں مظاہروں شروع ہو گئے تھے ، جن میں 200 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے ، تاہم اب ایرانی حکومت نے سخت قوانین میں تبدیلی کا عندیہ دے دیا ہے۔

ایران میں خواتین کا احتجاج بلاآخر رنگ لے آیا ، مہینوں کے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد ایران نے "مورلیٹی پولیس” کے ڈیپارٹمنٹ کو ختم کر دیا اور حجاب کے لازمی قانون میں تبدیلی پر غور شروع کردیا ہے۔

ایران کے اعلیٰ عہدیداروں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران نے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد اخلاقی پولیس (مورلیٹی پولیس) کو ختم کر دیا اور حجاب کے لازمی قانون میں تبدیلیوں پر غور شروع کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

خامنہ ای کی بھانجی ایرانی عوام کو بغاوت پر اکسانے کے الزام میں گرفتار

ایرانی مظاہرین نے امام خمینی کی جائے ولادت کو نذرآتش کردیا

غیرملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام نے ہفتے کے روز اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ ملک میں اخلاقی پولیس کے ڈیپارٹمنٹ کو ختم کررہے ہیں۔

اخلاقی پولیس کی زیرحراست 22سالہ مہسا امینی کے ہلاکت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ مورلیٹی پولیس نے خواتین کے لباس کے سخت ضابطوں کی پابندی نہ کرنے پر مہیسا امینی کو جرمانہ کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا جس کی اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔

بی بی سی ، اے ایف پی اور نیویارک ٹائمر کی رپورٹ کے مطابق اس اقدام کا اعلان ایران کے اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اخلاقی پولیس کا "عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں” اس لیے اسے ختم کر دیا جائے گا۔

اس بات کا اعلان محمد جعفر منتظری نے ایک مذہبی تقریب کے دوران اخلاقی پولیس سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کیا۔

تاہم غیرملکی میڈیا کی رپورٹنگ کے برخلاف ایرانی سرکاری خبر رساں اداروں نے اس خبر کی تردید کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اس بات کی تصدیق کسی دوسرے سرکاری عہدے دار نہیں ابھی تک نہیں کی ہے۔ دلیل کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ محمد جعفر منتظری نے صرف یہ کہا تھا کہ اخلاقی پولیس کا یونٹ ایران کی عدلیہ کی نگرانی میں نہیں آتا۔

مہیسا امینی کی ہلاکت کے بعد متنازعہ پولیس فورس اور اس کے اعلیٰ حکام کو امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور یورپی یونین سمیت متعدد ممالک کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ایرانی میڈیا نے محمد جعفر منتظری کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے خواتین کے لیے لباس کے ضابطوں کو کنٹرول کرنے والے اپنے قوانین پر نظرثانی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جس کے تحت وہ اپنے سر کو حجاب سے ڈھانپیں یا نہ ڈھانپیں ، اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں جو ان کے بازو اور ٹانگیں ڈھانپیں۔

ہفتے کے روز ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے ایک ٹیلی ویژن خطاب میں ممکنہ اصلاحات کی طرف اشارہ کیا تھا ، انہوں نے ایران کی اسلامی اور جمہوری بنیادوں کے درمیان تعلق کا اعادہ کیا تھا ، ان کا مزید کہنا تھا کہ "آئین کے نفاذ کے ایسے طریقے ہیں جو لچکدار ہو سکتے ہیں۔”

یہ اعلان ممکنہ طور پر ایرانی حکومت کی جانب سے ستمبر سے ملک میں ہونے والے مظاہروں کو روکنے کی کوشش ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا مظاہرین اس کو حکومت کی طرف سے ایک مناسب رعایت کے طور پر دیکھیں گے یا نہیں۔ کیونکہ اس کے باوجود بھی کریک ڈاؤن جاری ہے۔

ماہ ستمبر میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے مظاہرے ، ابتدا میں حجاب مخالف مظاہروں کے طور پر شروع ہوئے تھے، وہ بتدریج ملک کی قدامت پسند اسلامی حکومت کے خلاف بڑھتے چلے گئے ، یہاں تک  کہ مظاہرین نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی معزولی کا مطالبہ بھی کردیا تھا۔

ایران میں مظاہروں کا پس منظر

ایران بھر میں جاری مظاہروں کا آغاز ستمبر میں ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔ 13 ستمبر کو مہسا امینی جو تہران کا دورہ کر رہی تھیں ، کو اخلاقی پولیس نے خواتین کے لیے ملک کے پابندی والے لباس کے ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ مہسا امینی کو مبینہ طور پر سر پر ڈنڈے مارے گئے تھے ، عین اسی وقت اس کا سر پولیس کی گاڑی سے ٹکر گیا تھا اور وہ کوما میں چلی گئی تھی ، بالآخر 16 ستمبر کو اسپتال میں انتقال کر گئیں تھیں، جس کے بعد ملک بھر میں غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

ایک اندازے کے مطابق ملک میں جاری رہنے والے اب تک کے مظاہروں میں 200 سے زائد خواتین اور مرد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔

متعلقہ تحاریر