کراچی میں ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران شہریوں کے خون کی ہولی جاری، پولیس خاموش تماشائی
سماجی حلقوں نے ڈکیتی اور قتل کی وارداتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں کے خلاف ایکشن لینے میں جلدی کریں ورنہ دیر ہو جائے گی۔
کراچی کی سب سے مصروف اور بڑی سڑک شاہراہ فیصل پر گذشتہ دو روز میں ڈکیتی کی دو وارداتوں کے دوران دو نوجوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا شہر ، پاکستانی معیشت کا 70 فیصد ٹیکس جمع کرنے والا شہر ، آئے روز ڈکیتوں کی گولیوں کی تڑ تڑ سے گونج اٹھتا ہے ، ڈکیتی کی ان وارداتوں میں لوگ اپنی قیمتی اشیاء کے ساتھ ساتھ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
بڈھ بیر میں مدرسے کی معلمہ کے قتل کا ڈراپ سین، قاتل بہنوئی نکلا
دعا زہرہ کی طرح کراچی سے اغواء ہونے والی 12 سالہ بچی پنجاب سے بازیاب
24 ستمبر کی شام شاہراہ فیصل پر دوران ڈکیتی مزاحمت پر ڈاکوؤں نے فائرنگ کرکے ایک گھر کا چراغ گُل کردیا۔ جاں بحق ہونے والے نوجوان کی عمران 22 سے 24 سال کے دوران تھی۔
اسی طرح سے گذشتہ رات شاہراہ فیصل پر ہی ڈاکوؤں نے ایک نوجوان کو دوران ڈکیتی لوٹ لیا ، تاہم مزاحمت پر ڈاکوؤں نے نوجوان کے سر میں گولی مار کر قتل کردیا۔
جاں بحق ہونے والے نوجوان کی شناخت عفان احمد کے نام سے ہوئی۔
جاں بحق ہونے والے نوجوان عفان احمد کی دو ماہ قبل شادی ہوئی تھی اور آج صبح انہوں نے عمرے کے لیے سعودیہ روانہ ہونا تھا۔
عفان احمد جماعت اسلامی کے سابق یوسی ناظم ولید احمد کے بھتیجے تھے۔ جسے عوامی مرکز کے قریب ڈکیتی کی مزاحمت پر 2 ڈاکوؤں نے گولی مار دی۔ مقتول کی رہائش پی اے ایف ہاؤسنگ سکیم میں تھی۔
عفان احمد کراچی کے علاقے سائٹ ایریا میں پلاسٹک کمپنی کے مالک تھے۔ عفان احمد کی نماز جنازہ آج صبح 10 بجے فالکن سوسائٹی بلوچ کالونی مسجد میں ادا کی گئی۔
اسی طرح سے آج ڈکیتی کی ایک اور واردات میڈیا رپورٹر کے ساتھ ہوئی ہے جس میں ڈاکو کیمرے ، لینزز اور موبائل فونز سمیت تقریباً 5 لاکھ روپے کا سامان لوٹ کر فرار ہو گئے ہیں۔ ڈکیتی کا شکار ہونے والے رپورٹر نے روتے ہوئے واقعے کی روداد سنائی ہے ، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔
سماجی حلقوں نے شہر میں بڑھتی ہوئی ڈکیتی کی وارداتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ شہر کی سڑکوں پر گھومنے پھرنے والے مجرموں کے خلاف سخت کارروائیاں عمل میں لائیں کیونکہ ایسے مجرم کسی رعایت کے مستحق نہیں بلکہ یہ معاشرے کے ناسور ہیں ، ان چند ایک مجرموں کی وجہ سے معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے ، اور عام شہری کا پولیس کے حساس ادارے سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر قانون وقت پر حرکت میں نہ آیا تو عوام خود قانون کو ہاتھ میں لے لیگی اور تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔