اوکاڑہ میں جعلی نازیبا تصاویر وائرل کرنے پر 4 بچوں کی ماں کی خودکشی

قریبی رشتیداروں نے نبیلہ کا چہرہ برہنہ دھڑ پر چسپاں کرکے تصاویر سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر وائرل کردی تھیں، متاثرہ خاتون نے ایف آئی اے سائبر کرائم میں درخواست بھی دی تھی، انصاف نہ ملنے پر زہر پی کر زندگی کا خاتمہ کرلیا، خاتون سمیت 3 ملزم گرفتار

پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کے قصبے دیپالپور کی رہائشی 4 بچوں کی ماں نے  اپنی جعلی تصاویر سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر اپ لوڈ اور شیئر کرنے والوں کیخلاف کارروائی نہ ہونے پر اتوار کو خودکشی کرلی۔

قریبی رشتیداروں نے متوفیہ نبیلہ کو قابل اعتراض حالت میں دکھانے کیلیے اس کی جعلی تصاویر بناکر انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ اور رشتیداروں کو واٹس ایپ کردیا تھا۔

انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق متاثرہ خاتون نبیلہ نے 18 جولائی کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ میں اپنی شکایت درج کراتے ہوئے تمام مشتبہ افراد کو نامزد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے اس عمل نے اس کی زندگی جہنم بنادی اور اس کے خاندان کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اسلام آباد پولیس اپنے شہریوں کو اغوا کرکے بھتہ طلب کرنے لگی

کراچی میں کاریں اور موٹر سائیکلیں چوری کرنے والا 14 سالہ ملزم گرفتار

واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ تصاویر اپ لوڈ کرنے سے پہلے  ملزمان نے مبینہ طور پر متاثرہ خاتون کی7 سالہ بیٹی کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کے باعث بچی کے بازو ٹوٹ گئے تھے ۔

تصاویر اپ لوڈ اور شیئر کیے جانے کے بعد دونوں طرف کے خاندان کے بزرگوں نے پولیس کو اطلاع دینے کے بجائے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی اور حملہ آوروں کو حکم دیا کہ وہ بچی کے علاج کا معاوضہ اداکریں تاہم ملزمان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور معاوضے کی رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی۔

خاتون  کے اہل خانہ نے بتایا کہ ملزموں کے خلاف کارروائی کی کئی دنوں کی درخواستوں کے بعد 4 بچوں کی ماں  نے زہر پی کر اپنی جان لے لی۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ایف آئی اے کے پاس ملزمان کے خلاف کارروائی کے لیے کافی وقت تھا، لیکن غیر معمولی تاخیر اور طریقہ کار کے تقاضے اس کی موت کا باعث بنے۔

متاثرہ خاندان  کے مطابق  تصاویر وائرل ہونے کےبعد سے  متاثرہ خاتون بے حد درد اور اذیت میں تھی،اسے بیٹی کی تکلیف سمیت اپنے شوہر اور قریبی رشتے داروں کے سخت سوالات کا سامنا تھا۔

دریں اثنا اوکاڑہ کے ڈی پی او فرقان بلال نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے متاثرہ خاتون کی جانب سے ایف آئی اے کو شکایت میں نامزد تین ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے اور دیگر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گرفتار  ملزمان میں مقتول کے رشتہ دار تیمور، ذیشان اور ایک خاتون فاطمہ شامل ہیں۔

ایف آئی اے کو درج کرائی گئی شکایت کے مطابق  متاثرہ نے بتایا کہ ملزمان نے اس کی تصاویرکھینچیں اور اس کے چہرے کو برہنہ جسم پر چسپاں کردیا اور  پھر وہ تصاویر اس کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو واٹس ایپ پر بھیج دی گئیں۔

متوفیہ نے درخواست میں الزام عائدکیا تھاکہ ملزمہ فاطمہ نے ایک صوتی پیغام ریکارڈ کیا اور اسے ترمیم شدہ تصاویر کے ساتھ شیئر  کرتے ہوئےمتاثرہ خاتون کے رشتیداروں کو ہدایت کی کہ ان تصاویر کو مزید پھیلایا جائے ۔

اگرچہ ایف آئی اے نے کیس کی تحقیقات لاہور کی ایک خاتون انسپکٹر کو تفویض کی تھی  تاہم متاثرہ  خاتون کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ایجنسی نے شکایت کنندہ کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا اور مجرم اسے بلیک میل کرتے رہے۔

ایف آئی اےسائبر کرائم پنجاب  کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز خان ورک نے ڈان کو بتایا کہ ستمبر کے پہلے ہفتے میں ایک لیڈی انسپکٹر نے مشتبہ شخص کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا لیکن شکایت کنندہ نے اتھارٹی سے کہا کہ معاملہ بند کر دیا جائے کیونکہ اسے خاندان کے بزرگوں نے حل کر دیا تھا۔ .

بعد ازاں شکایت کنندہ نے دوبارہ ایف آئی اے لاہور کے دفتر کا دورہ کیا اور حکام سے کہا کہ وہ کارروائی شروع کریں کیونکہ بزرگ اس کے کیس کا فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔

سرفراز ورک نے بتا یا کہ  جب ایف آئی اے نے کارروائی شروع کی تو مشتبہ خاتون کے براہ راست ملوث ہونے کے شواہد نہیں مل سکے،  انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ایک اور مشتبہ شخص کی تحویل بھی مانگی تھی اور اس کے موبائل فون کے فرانزک تجزیہ کا حکم دیا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں سرفراز ورک  نے کہا کہ تفتیش کے دوران اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ ملزمان نے جان بوجھ کر متاثرہ کی تصویروں میں ترمیم کی تاکہ اسے برے کردار کی عورت ظاہر کیا جا سکے تاہم معاملے کی تفتیش جاری تھی کہ متاثرہ خاتون کی موت کی اطلاع آگئی۔ ایف آئی اے حکام نے ایسے کیسز کی بھرپور پیروی کے لیے وسائل اور افرادی قوت کی کمی کی شکایت کی ہے۔

نبیلہ کا کیس ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے پاس زیر التوا 44000 کیسز میں سے ایک تھا۔ ان میں سے تقریباً 18 ہزارمقدمات خواتین نے درج کروائے ہیں۔عہدیداروں نے کہا کہ بہت زیادہ پسماندگی کے پیش نظر تمام زیر التوا مقدمات کی تحقیقات کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ خواتین تفتیشی افسران کی تعداد بہت کم ہے۔

متعلقہ تحاریر