پاکستان میں خواتین کے بینک اکاؤنٹس کیوں کم ہیں؟

ملک میں 51 فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف 18 فیصد خواتین کے فعال بینک اکاؤنٹس ہیں

پاکستان میں بینکوں کے نگراں ادارے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان کے مطابق ملک میں 51 فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف 18 فیصد خواتین کے فعال بینک اکاؤنٹس ہیں۔ پائیدار معاشی نمو کے لیے خواتین کی مالی اور معاشی وسائل تک یکساں رسائی ضروری ہے۔

اسٹیٹ بینک نے معیشت کے شعبے میں صنفی فرق ختم کرنے کے لیے ‘برابری پر بینکاری’ کے عنوان سے پیر کے روز ویبینار کا اہتمام کیا ہے۔ ویبینار کا مقصد برابری کی بنیاد پر بینکاری کی پالیسی پر مشاورت کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بیرونی سرمایہ کاری میں سہولت فراہم کردی

مرکزی بینک نے قومی مالیاتی شمولیت حکمت عملی کے تحت قومی ہدف طے کیا ہے۔ اس ہدف کے تحت 2023 تک 2 کروڑ خواتین کے بینک اکاؤنٹس ہوں گے۔

اگر اعدادوشمار کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو سعودی عرب میں 50 فیصد اور ایران میں 90 فیصد خواتین کے فعال بینک اکاؤنٹس ہیں۔

پاکستان میں بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے کم از کم 2 تصدیق شدہ دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں میں بھی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کے پاس قومی شناختی کارڈ اور نکاح نامہ نہیں ہے۔ معاشرتی دباؤ اور آگاہی کی کمی کی وجہ سے ان کے لیے یہ دستاویزات رکھنا مشکل ہے۔

پاکستان میں خواتین کی خواندگی کی شرح اب بھی 45 فیصد ہے جو اس خطے میں سب سے کم ہے۔ صحت کی ناقص سہولیات کے باعث صحت کی نگہداشت کا نظام بھی خواتین کے لیے غیرمساوی ہے۔

خواتین کی ملازمت کا تناسب 48 فیصد ہے جو کسی بھی ملک کی معاشی نمو کے لیے مایوس کن ہے۔

پاکستان کا آئین ہر طرح سے امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی کئی معاملات عدم مساوات کا شکار ہیں۔

متعلقہ تحاریر