نیوزی لینڈ سیریز میں پاکستان کی ٹیم نے کیا کھویا کیا پایا؟

کیا انتظامیہ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ قومی ٹیم کو پہلے بیٹنگ سے زیادہ پہلے فیلڈنگ سوٹ کرتی ہے

جب نومبر کے آخر میں پاکستان کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ پہنچی تو اس کو کمروں میں صرف اس لئے بند کردیا گیا کہ چند کھلاڑیوں کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ 2 ہفتوں بعد جب ان کو پریکٹس کی اجازت ملی تو کپتان بابر اعظم زخمی ہو کر ٹی ٹوئنٹی سیریز سے باہر ہوگئے۔ جب ٹی ٹوئنٹی سیزیز ختم ہوئی تو بابر اعظم  پہلے ٹیسٹ میچ سے باہر ہوگئے۔

اس دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی سیریز ہار کر آخری میچ جیتا اور دکھی شائقین کو خوش ہونے کا ایک موقع دیا۔ لیکن کیا وہ اقدام جو آخری میچ میں اٹھائے گئے وہ سیریز کے آغاز میں کیوں نہیں لئے گئے؟ کیوں پاکستان ٹیم نے پہلے 2 میچ کو پریکٹس میچ کے طور پر کھیل کر تیسرے میچ میں بہتر کارکردگی دکھائی؟

پاکستان ٹیم تجھ سے ہوتا ہے صرف چیز

ایک وقت تھا جب پاکستان کی ٹیم کو ہرانے کے لئے صرف ٹاس ہی کافی ہوتا تھا۔ گرین شرٹس کےخلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کافیصلہ مطلب وکٹوں کے حساب سے کامیابی پکی۔ لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف تیسرے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں قومی کرکٹ ٹیم نے توقعات کے برعکس نہ صرف بڑے ہدف کا تعاقب کیا بلکہ دنیا کو بتادیا کہ گرین شرٹس ہدف سیٹ کرنے سے زیادہ ہدف حاصل کرنے میں ماسٹر ہے۔

کیا انتظامیہ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ پاکستان کی ٹیم کو نیوزی لینڈ میں پہلے بیٹنگ سے زیادہ پہلے فیلڈنگ سوٹ کرتی ہے؟ کس عقلمند نے مشورہ دیا تھا کہ اپنی محدود بیٹنگ قابلیت اور قابل اعتماد بلے بازوں کی غیر موجودگی میں پہلے 2 میچ میں ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا جائے؟

ہیڈ کوچ مصباح الحق اب نہ تو بیٹنگ کوچ رہے ہیں اور نہ ہی چیف سلیکٹر اگر وہ اپنا کام اب بھی خوش اسلوبی سے نہ کرسکے تو انہیں عہدہ چھوڑ کر اپنے علاقے میں اکیڈمی بنا لینی چاہئے۔ تاکہ وہ ہونہاروں کے مستقبل سے کھیلیں جو شاید ویسے بھی  قومی ٹیم میں جگہ نہیں بناپائیں گے۔

 میں محمد رضوان چل گئے تو پاکستان چل گیا

قومی کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر محمد رضوان سے نہ تو ان کی پی ایس ایل ٹیم ٹی ٹوئنٹی میں بیٹنگ کا آغاز کراتی ہے اور نہ ہی وہ کسی اور فارمیٹ میں اوپننگ کرتے ہیں۔ پھر بھی مصباح الحق کو ان کی شکل میں ایڈم گلکرسٹ نظر آیا اور انہوں نے تینوں ٹی ٹوئنٹی میچز میں ان سے اننگز کا آغاز کرایا۔ پہلے 2 میچ میں ناکامی کے بعد وکٹ کیپر بیٹسمین نے تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں میچ وننگ اننگز کھیلی۔

لیکن ایسی اننگز کا کیا فائدہ جو سیریز ہارنے کے بعد سامنے آئے؟ اس اننگز سے انہوں نے اپنے ناقدین کو منہ توڑ جواب تو دے دیا لیکن کیا نیوزی لینڈکی تیز اور باؤنسی وکٹوں پر وہ چل سکیں گے؟ اس کا فیصلہ تو ٹیسٹ سیریز میں ہی ہوگا۔ دعا کریں کہ ان کے کوچ آخری میچ میں جارحانہ بیٹنگ کے بعد ان سے ٹیسٹ میچ میں بھی اوپننگ  نہ کرادیں۔

یہ بھی پڑھیے

محمد عامر کی یادگار پرفامنسز

پاکستانی کرکٹ ٹیم
PCB

اعجاز احمد ایک کھلاڑی نہیں کیفیت  کا نام ہے

سابق ٹیسٹ کرکٹر اعجاز احمد کے بارے میں مشہور تھا کہ جب جب ان کو ٹیم سے نکالنے کی بات کی جاتی تھی تب تب وہ کوئی ایسی  اننگز کھیل دیتے تھے جس کی وجہ سے انہیں ڈراپ کرنے کا معاملہ ٹل جاتا تھا۔

انگلینڈ کے خلاف 1996 کی ٹیسٹ سیریز ہو، بھارت کے خلاف لاہور میں جارحانہ 139 ناٹ آؤٹ یا پھر بنگلا دیش میں چار ملکی کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں سنچری، اعجاز احمد ہمیشہ بیٹنگ کرکے اپنی جگہ بچا لیتے تھے۔

یہی وہ پلان ہے جس کے مطابق آج کل چل رہے ہیں محمد حفیظ۔۔ یہاں انہیں ٹیم سے باہر نکالنے کی بات ہوئی اور وہاں ان کا بیٹ چلا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے میچ میں غیر ذمہ دارانہ بلے بازی کے نتیجے میں گولڈن ڈک کے بعد ہی باتیں شروع ہوگئیں کہ محمد حفیظ کو اب باعزت طریقے سے ریٹائر ہوجانا چاہئے۔

لیکن جو اعجاز احمد  کا شاگرد اسے کون ٹیم سے نکالے؟ آخری دونوں ٹی ٹوئنٹی میں محمد حفیظ نے 99 ناٹ آؤٹ اور 41 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر سب کو حیران کردیا۔ اب اگلے ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز تک وہ لیگ کرکٹ کھیل کر خود کو فارم میں رکھیں گے اور جہاں انہیں ہوگی نکالنے کی بات وہیں چلے گا ان کا بیٹ

پاکستانی اسپنرز کا وکٹ نہ لینا پریشان کن ہے

سیریز کے 3 میچز میں وکٹ نہ لینے والے بالرز کی بات کی جائے تو اس فہرست میں کپتان شاداب خان اور عماد وسیم کا نام آتا ہے۔ شاداب نے 3 اور عماد نے 2 میچز کھیلے لیکن کسی بھی کھلاڑی کو آؤٹ نہیں کیا۔ جو کہ اس لئے بھی حیران کن ہے کہ دونوں کا ٹی ٹوئنٹی ریکارڈ کافی متاثر کن ہے۔

ویسے تو میزبان ٹیم کے بھی 2 اسپنرز نے تین میچز میں ایک ہی وکٹ حاصل کی لیکن پاکستانی اسپنرز نے ہمیشہ ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور اس سیریز میں وکٹ نہ لینا انتظامیہ کے لئے پریشان کن ہونا چاہئے۔

اوپر سے دوسرے میچ میں عماد وسیم کا اپنے کپتان سے برتاؤ نامناسب تھا۔ جس پر سینئیر کھلاڑی محمد حفیظ بھی طیش میں آگئے تھے۔ کیا عماد وسیم کم بالنگ ملنے پر ناراض تھے یا اپنے جونئیر کھلاڑی کی کپتانی میں کھیلنے پر یہ تو انتظامیہ ہی بتا سکے گی۔

PCB

وہاب ریاض ٹی ٹوئنٹی کا حصہ کیوں ہیں؟

نیوزی لینڈ کے دورے میں پاکستان کی ٹیم میں پریشان کن تو وہاب ریاض کی شمولیت بھی ہونی چاہئے۔ جس ٹیم میں نوجوان کھلاڑیوں کی جگہ نہ بن رہی ہو وہاں ایک ایسے بالر کو کھلانا جس کا کام صرف پٹنا ہی نہیں بلکہ بہت پٹنا ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔

وہاب ریاض نے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں ایک ہی اوور میں 19 رنز دے کر میچ کا پانسہ ہی پلٹ دیا لیکن اپنی نہیں دوسری ٹیم کے لئے۔ دونوں ٹیموں کی طرف سے وہ واحد بالر تھے جنہوں نے سیریز کے دوران 10 رنز فی اوور کے حساب سے مار کھائی۔

انہوں نے صرف 4.5 اوورز کرائے جس میں 64 رنز پڑے اور وکٹ لینے کی انہوں نے اتنی ہی کوشش کی جتنی کامران اکمل کیچ پکڑنے کی کرتے تھے۔

یہ وہ پہلا موقع نہیں جب انہوں نے ایک ٹی ٹوئنٹی میں ایسا کیا ہوا۔ اب تک انہوں 36 ٹی ٹوئنٹی میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے اور 18 میچز میں 7 رنز فی اوورز کی اوسط سے مار کھائی ہے۔ ان کا کیرئیر اکانومی ریٹ بھی 8 رنز فی اوور ہے۔

جبکہ ایک ٹی ٹوئنٹی میچ میں 3 وکٹ کا کارنامہ وہ صرف 2 بار حاصل کرچکے ہیں۔ ان سے زیادہ اچھا ریکارڈ تو محمد عامر کا ہے جو دلبرداشتہ ہوکر ٹیم سے باہر ہیں۔ اور وہاب ریاض ٹیم میں ہوکر بھی کچھ اچھا نہیں کررہے۔

کیا افتخار احمد اور فہیم اشرف آل راؤنڈرز ہیں؟

اس وقت جب دنیا بھر کی ٹیمیں ٹی ٹوئنٹی میچز میں آل راؤنڈرز کھلانے کو ترجیح دیتی ہیں پاکستان وہ واحد ملک ہے جواسپیشلسٹ کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترتا ہے۔ کیا فہیم اشرف اور افتخار احمد دونوں کو ان کی دہری اہلیت کی وجہ سے فائنل الیون کا حصہ نہیں ہونا چاہئے تھا؟

کیا نیوزی لینڈ میں ٹی ٹوئنٹی سیریز میں وہاب ریاض کو پاکستان کی ٹیم میں صرف اس لئے کھلایا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے ریڈ بال کرکٹ سے ریٹائرمنٹ واپس  لے کر مینجمنٹ کو خوش کیا؟ فہیم اشرف نے اس سیریز کے پہلے میچ میں اچھی بیٹنگ اور تیسرے میچ میں اچھی بالنگ کرکے اپنی اہلیت کا ثبوت دیا۔

جبکہ افتخار احمد نے اعصاب کو قابو میں رکھ کر آخری اوور میں چھکا لگا کر ثابت کیا کہ دم تو ان میں بھی ہے بس موقع ملنے کی دیر ہے۔ سیریز سے قبل انٹرا اسکواڈ پریکٹس میچ میں سنچری بنانے والے اس کھلاڑی کو ٹی ٹوئنٹی سیریز کا مستقل حصہ  کیوں نہیں بنایا گیا؟

وہ بھی اس وقت جب ٹیم کا سب سے کامیاب بلے باز زخمی تھا۔ اس کا جواب مصباح الحق سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا۔ لیکن آج کل وہ جواب دینے سے زیادہ اپنا سر پکڑ کو خود کو کوسنے میں زیادہ مصروف نظر آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

Hafeez Won Hearts and Responds to Ramiz Raja’s Retirement Advise

متعلقہ تحاریر