شکوے کے جواب میں این آئی سی وی ڈی کا جواب شکوہ

این آئی سی وی ڈی نے سابق ہیڈ آف سرجری ڈاکٹر پرویز چوہدری کے الزامات کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا

کراچی کے قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) نے سابق ہیڈ آف سرجری ڈاکٹر پرویز چوہدری کے ادارے میں بد عنوانی اور امتیازی سلوک سے متعلق تمام الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

ترجمان این آئی سی وی ڈی کے مطابق ”ڈاکٹر پرویز چوہدری اب ادارے کا حصہ نہیں رہے۔ انہوں نے کانٹریکٹ میں توسیع نہ ہونے پر انتظامیہ پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں۔ ان الزامات میں ایک فیصد بھی سچائی نہیں ہے۔ انہیں این آئی سی وی ڈی میں یہ خامیاں پہلے نظر کیوں نہیں آرہی تھیں؟۔‘‘

ترجمان کے مطابق پروفیسر ندیم قمر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بننے کے بعد ادارے نے بے تحاشہ ترقی کی تھی۔ 2015ء میں صرف ایک این آئی سی وی ڈی تھا۔ اب یہ 28 اسپتالوں پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا ہیلتھ کیئر نیٹ ورک بن چکا ہے۔ ادارے کی ترقی میں پروفیسر ندیم قمر کا ویژن اور ان کی انتھک محنت شامل ہے۔

ترجمان این آئی سی وی ڈی نے کہا کہ ڈاکٹر پرویز چوہدری واحد ڈاکٹر نہیں جو امریکا سے آئے تھے۔ این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ندیم قمر سمیت کئی سرجنز اور ڈاکٹرز امریکا اور دیگر ممالک سے آ ئے ہیں۔ یہ تمام لوگ این آئی سی وی ڈی جوائن کر کے مریضوں کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔

ترجمان کے مطابق ادارہ برائے امراض قلب میں دنیا کے نامور کارڈیک سرجنز موجود ہیں۔ ڈاکٹر اسد بلال اعوان ایک سینئر اور تجربہ کار سرجن ہیں۔ انہیں قائم مقام ہیڈ آف سرجری ڈپارٹمنٹ بنایا گیا ہے۔

پاکستان کے قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی میں غیرقانونی بھرتیوں اور ٹھیکوں کے انکشافات ہوئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف آپریٹنگ آفیسر عزرا مقصود اور کنسلٹنٹ حیدر اعوان سے نیب نے تین تین گھنٹے تحقیقات کی تھیں۔ 15 لاکھ سے زیادہ تنخواہ والے اُمیدوار حیدر اعوان نے چشم کشا انکشافات کیے تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ بھرتی کے لیے ٹیسٹ دیا اور نا ہی درخواست۔

حیدراعوان کو بغیر درخواست دیئے تنخواہ اور الاؤنس کی مد میں 15 لاکھ روپے ماہانہ پر بھرتی کیا گیا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ 2015ء میں ڈاکٹر ندیم قمر نے فون کر کے اُنہیں ملازمت شروع کرنے کو کہا تھا۔

نیوز 360 کے ذرائع کے مطابق کنسلٹنٹ حیدراعوان ڈاکٹر نہیں ہیں۔ انہوں نے بی اے آرٹس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ حیدر اعوان کا اپریل 2020ء میں کانٹریکٹ ختم ہوا لیکن تنخواہیں جارہی ہیں۔

کنسلٹنٹ حیدر اعوان نے تحقیقاتی حکام کو بیان دیا کہ اُن کا کانٹریکٹ ختم ہونے کے باوجود تنخواہ کیوں دی جاری ہے؟ یہ ڈاکٹر ندیم قمر اور انتظامیہ سے پوچھیں۔

ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ادارہ برائے امراض قلب کی چیف آپریٹنگ آفیسر عزرا مقصود کو سندھ کلب میں اعشائیہ پر بلا کر بھرتی کی پیشکش کی گئی تھی۔ عزرا مقصود نے تحقیقاتی حکام کو بتایا کہ ان کا اسپتال انتظامیہ کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ انہیں اِس عہدے کی گریڈ 20 کی آسامی پر 2015ء میں ایڈہاک بنیاد پر بھرتی کر کے 6 ماہ میں مستقل کیا گیا تھا۔

حیدر اعوان کو بی اے آرٹس کے باوجود ادارے کے کنسلٹنٹ پر بھرتی کیا گیا۔ حیدراعوان نے تحقیقات میں انکشاف کیا کہ انہیں تنخواہیں خیراتی فنڈز سے دی جارہی ہیں۔ حیدر اعوان نیب تحریری ہدایات کے باوجود اپنی بی اے کی اسناد اور کنسلٹنسی کی رپورٹس پیش کرنے میں ناکام رہے۔ حیدراعوان اور عزرا مقصود نے مزید ریکارڈ دینے کے لیے نیب سے 2 ہفتوں کا وقت مانگا ہے۔

نیب نے این آئی سی وی ڈی میں مزید اعلیٰ عہدیداروں کو طلب کر کے تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے چیف آپریٹنگ افسر کے عہدے پر تعینات عزرا مقصود اور کنسلٹنٹ حیدر اعوان کو تحقیقات کے لیے طلب کیا تھا۔ نیب نے اب تک ڈائریکٹر ایچ آر داور حسین، چیف آپریٹنگ افسر عزرا مقصود اور کنسلٹنٹ حیدر اعوان سے ابتدائی تحقیقات مکمل کرلی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

این آئی سی وی ڈی میں عہدوں کی بندر بانٹ

ذرائع کے مطابق کراچی دل کی بیماری کے سب سے بڑے اسپتال میں بڑی سیاست ہو رہی ہے۔ این آئی سی وی وی ڈی کے ڈائریکٹرپروفسیر ندیم قمر اورہیڈآف کارڈیک سرجری پروفیسر پرویز چوہدری کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ ڈائریکٹر ہیڈ آف کارڈیک سرجری نے برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیب کو مختلف شعبوں کے بارے میں کیوں بتایا؟

جمعرات کو سرجری پروفیسر پرویز چوہدری نے کہا تھا کہ ‘نیب اگر کارڈیو اسپتال میں چھاپے مار رہی ہے یا تفصیلات لے رہی ہے تو میرا کیا قصور ہے؟۔ کارڈیو اسپتال میں دل کی جدید سرجری کر کے اس کا معیار دنیا میں بلند کیا۔ مجھے یہ صلا مل رہا ہے۔ پریس کانفرنس میں اہم انکشاف کروں گا جس کا کسی کو معلوم ہی نہیں ہوگا’۔

پروفیسر پرویز چوہدری امریکا سے تربیت یافتہ ہیں۔ وہ این آئی سی وی ڈی میں لیفٹ وینٹریکل اسسٹ ڈیوائس پروگرام شروع کرنے والے سرجن ہیں۔ دل کے اسپتال میں دوبڑے افسران کی لڑائی پر طبی عملہ بھی دو گروپس میں تقسیم  ہوگیا۔ اسپتال میں اس سے قبل بھی مختلف ہیڈآف ڈپارٹمنٹ کو ہٹایا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب نیب کے مسلسل چھاپوں سے پورے اسپتال میں سیاست عروج پر پہنچ چکی ہے۔

اس سے قبل اسپتال کے سربراہ کے سابق اسٹاف آفیسر کی جانب سے جاری کردہ شوکاز سامنے آیا۔ شوکاز کنسلٹنٹ حیدر اعوان کو دیا گیا تھا۔ نوٹس میں انہیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کا کہا گیا تھا۔

شوکاز نوٹس کے مطابق حیدر اعوان فنڈز کا غیرضروری استعمال اور غیر قانونی تقرریاں کر رہے ہیں۔ حیدر اعوان غیرقانونی طور پر اسپتال کے سربراہ کی اسٹمپ استعمال کر رہے ہیں۔ حیدر اعوان شعبہ ہیومن ریسورس اور ایڈمن کے شعبے میں بےجا مداخلت کر رہے ہیں۔ کنسلٹنٹ حیدر اعوان ادارے کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جبکہ اسپتال حکام کا کہنا تھا کہ یہ شوکاز لیٹر جعلی ہے، اس کا نوٹس ایگزیکٹو ڈائریکٹر لے چکے ہیں۔ ڈاکٹر طارق شیخ کو شوکاز دینے کا اختیار نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

سندھ کے سرکاری بس اڈوں پر نجی ٹرانسپورٹرز کاقبضہ

متعلقہ تحاریر