حزبِ اختلاف کو مذاکرات کی دوسری حکومتی دعوت

شیخ رشید نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ انہوں نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دے دی۔

پاکستان کے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے لگاتار دوسرے دن حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔

حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سرد جنگ کا سا ماحول ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم حکومت کو گھر بھیجنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدرمریم نوازاپنے انٹرویو میں کہہ چکی ہیں کہ وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گی۔ جبکہ حکومتی وزیر دوسرے دن مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔

جمعہ کو پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیرریلوے شیخ رشید نے کہا کہ پی ڈی ایم میں حکومت ختم کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ عمران خان جلسوں سے کہیں نہیں جارہے۔ انہوں نے اپوزیشن سے مذاکرات پر آمادگی کا نا صرف اظہار کیا بلکہ دعوت بھی دی۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوتے۔ بالآخر اپوزیشن حکومت سے ہی مذاکرات کی طرف آئے گی۔ وزیراعظم عمران خان مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

اس سے قبل وہ جمعرات کو بھی کراچی سرکلر ریلوے کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کے دوران اپوزیشن کو بات چیت پر مدعو کر چکے ہیں۔

جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت بھی مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ اِس کے درپردہ مقاصد میں انتخابی اصلاحات کے قانون پر اعتماد سازی ہو سکتی ہے یا پھر سیاسی بحران ختم کرنا۔

یہ بھی پڑھیے

عدالتیں سیاست کا محور؟

شیخ رشید ماضی میں مسلم لیگ (ن) کا بھی حصہ رہ چکے ہیں۔ اس لیے وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

گزشتہ ماہ گوجرانوالہ کے جلسے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا تھا کہ مذاکرات ہو ہی نہیں سکتے۔ جبکہ 13 نومبر کو برطانوی نشریات ادارے کو انٹرویو میں مشروط مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ مذاکرات ہوسکتے ہیں لیکن حکومت سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) یا مولانا فضل الرحمان کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ دونوں جماعتیں مذاکرات کریں گی یا نہیں؟ ابھی تک اس بارے میں واضح موقف سامنے نہیں آیا۔

ماضی میں عمران خان کے دھرنے کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ سربراہ پی ٹی آئی نے 126 دن کا دھرنا دیا تھا اور اسلام آباد کو عملا معطل کر دیا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی حکومتوں کے خلاف بڑے دھرنے دیئے، لیکن ان کے مطالبات کا حل مذاکرات سے نہیں نکلا۔ اب اپوزیشن کو ماضی یاد رکھتے ہوئے کوئی بھی فیصلہ کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

جلسے کرنے والی جماعتوں کے رہنما کرونا سے خوف زدہ

متعلقہ تحاریر