کشمیر میں انسانی حقوق کیلیے سرگرم خرم پرویز تاحال زیرحراست

مودی حکومت دہشتگردی کا قانون اختلاف رائے رکھنے والوں پر نافذ کرنے لگی، وکلا، صحافی، سول سوسائٹی کے اراکین زیرحراست۔

خرم پرویز ایک نوجوان تھے جب ان کے دادا کو بھارتی فوج نے شہید کردیا۔ 1990 کی دہائی کے دوران کشمیر میں پلنے بڑھنے کے بعد وہ اس قسم کے واقعات کو دیکھنے کے عادی ہوگئے تھے لیکن دادا کی شہادت کو بھول نہ سکے۔

اگلی تین دہائیوں تک پرویز نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا اور کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے کی جانے والی متشدد کارروائیوں اور جبری گمشدگیوں کو دستاویزی شکل دی۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان حکومت پر پابندیوں:افغانستان میں صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر

آذربائیجان اور آرمینیا میں نئی جھڑپ، متعدد فوجی ہلاک

سنہ 2004 میں بارودی سرنگ پھٹنے سے ان کی ایک ٹانگ ضائع ہوگئی جس کے بعد انہوں نے حریت مجاہدین کو بارودی سرنگوں پر پابندی عائد کرنے کیلیے آمادہ کیا۔

اپنے انہی بڑے کاموں کی وجہ سے انہیں بین الاقوامی سطح پر سراہا جانے لگا لیکن پچھلے مہینے صبح سویرے 44 سالہ خرم پرویز کو بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے گھر سے گرفتار کرلیا۔

یہ سینٹرل بیورو دہشتگردی کے کیسز کی تفتیش کرتا ہے، این آئی اے نے خرم کو دہشتگردوں کی مالی معاونت کے الزام میں جیل بھیج دیا۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی پر الزامات ہیں کہ وہ اختلاف رکھنے والے لوگوں کی زباں بندی کررہی ہے اور خرم پرویز کی گرفتاری ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ایک نیا کیس ہے۔

انسانی حقوق کے سرگرم رہنما خرم پرویز کی غیرقانونی گرفتاری کے باوجود مودی ان عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں جو کہ امریکی صدر جوبائیڈن کی جموری سمٹ میں شرکت کریں گے۔

خرم کو جس قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اسے بھارت میں غیرآئینی اور غیرجمہوری تصور کیا جاتا ہے۔ UAPA, Unlawful Activities Prevention Act جو کہ دہشتگردی روکنے کے لیے بنایا گیا تھا اسے مودی سرکار حکومت کے ناقدین کو گرفتار کرنے کیلیے استعمال کرتی ہے۔

اس کالے قانون کے تحت سینکڑوں وکیل، سماجی کارکن، صحافی، پادری، شاعر، اساتذہ، سول سوسائٹی کے اراکین اور کشمیری شہری گرفتار کیے جاچکے ہیں۔

سنہ 2014 سے 2020 تک مودی حکومت کے دوران UAPA قانون کے تحت 10552 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

حراست میں لیے گئے افراد کو ضمانت ملنا ناممکنات میں سے ہے اور اسی وجہ سے یہ قیدی مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی کئی سال قید کاٹتے ہیں۔

پچھلے مہینے جب بھارتی ریاست ٹری پورا میں لسانی فسادات ہوئے تو اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے ان وکلا کو گرفتار کیا گیا جو کہ فسادات کی تفتیش کررہے تھے۔

وہ صحافی گرفتار کیے گئے جو کہ مساجد کے توڑے جانے کو رپورٹ کررہے تھے اور 150 سے زائد صحافیوں اور شہریوں کو حراست میں لیا گیا جو کہ ان فسادات کے متعلق ٹوئٹر پر ٹویٹ کررہے تھے۔

اس کے علاوہ ایک باپ جس نے بھارتی فوج سے اپنے بیٹے کی نعش مانگی، ایک مجاہد کی یاد میں کرکٹ میچ منعقد کرنے والے کھلاڑیوں اور ان کشمیریوں کے خلاف بھی UAPA کے تحت مقدمات بنائے گئے جنہوں نے ٹی 20 ورلڈکپ کے انڈیا پاکستان میچ میں پاکستان کو سپورٹ کیا۔

خرم پرویز کی گرفتاری کی بین الاقوامی سطح پر بھی مذمت کی گئی۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ خرم پرویز کو نشانہ بنایا گیا۔

ان کی تنظیم جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی نے بھارتی افسران کی جانب سے منظم ٹارچر اور جنسی زیادتی، جعلی پولیس مقابلوں اور اجتماعی قبروں کی مکمل تفتیش کی ہے۔

مذکورہ تنظیم نے کشمیر کے متاثرین کے لیے قانونی جنگیں بھی لڑی ہیں، یہی وجہ ہے کہ خرم پرویز کئی دہائیوں سے بھارتی فوج کے لیے ایک کانٹا بنے ہوئے تھے۔

انہیں سنہ 2016 میں بھی گرفتار کیا گیا لیکن 76 دن بعد عدالت نے ان کی حراست کو غیرقانونی قرار دیا جس کے بعد وہ رہا ہوگئے۔

پرویز امروز، خرم کے دوست ہیں، انہوں نے کہا کہ خرم کی گرفتاری ہمیں ڈرانے کے لیے ہے۔ خرم اب واحد رکن ہیں جو کہ اپنی تنظیم کو چلا رہے ہیں۔

تنظیم کے آفس پر بھارتی حکام نے اکتوبر 2020 میں چھاپہ مارا تھا جو کہ امروز کے مطابق ہمیں اپنے کام سے باز رکھنے کی پہلی کوشش تھی۔

اس کے بعد سے کوئی رضاکار فلاحی کام کرنے کو تیار نہیں کیونکہ سب ڈرے ہوئے ہیں، پہلے ہم یہاں متاثرین کی داد رسی کرتے تھے لیکن اب ہم ہی خوفزدہ ہیں۔

متعلقہ تحاریر