لاہور ہائیکورٹ بار نے پیکا آرڈیننس کو چیلنج کردیا

ایڈووکیٹ مقصود بٹر کا کہنا ہے آرڈیننس کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو روکنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر محمد مقصود بٹر نے بھی پیکا آرڈیننس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا، عدالت میں دائر درخواست میں ان کا موقف ہےکہ  یہ آرڈیننس اسلام کے احکام کے خلاف ہے، ایسا کوئی قانون نافذ نہیں کیا جاسکتا جو آئین کے آرٹیکل 2-A اور 227 کے خلاف ہو۔

درخواست میں کہا گیا کہ یہ آرڈیننس آزادی اظہار کے بنیادی اسلامی اصولوں، معلومات، قیادت، اقتدار میں موجود افراد سے ان مقاصد کے لیے سوال کرنے کے حق کے لیے جارحانہ ہے، دریافت یا سچائی اور احتساب، کون سے حقوق ہیں۔؟

یہ بھی پڑھیے

یوکرین میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کیلیے تیاری مکمل

انصار عباسی کا  آئی ایس آئی کے سابق سربراہان پر سیاسی انجینئرنگ کا الزام

اسلام میں اہم بنیادی انسانی حقوق، قرآن میں موجود ہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے آئین میں بھی ان حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ یہ آرڈیننس نہ صرف غیر آئینی بلکہ سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں کی بھی صریحاً لاف ورزی ہے۔

غیر آئینی آرڈیننس ایف آئی اے کو غیر معمولی اختیارات دے دیتا ہے۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ یہ آرڈیننس نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ ایف آئی اے ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے، اس آرڈیننس کے ذریعے جو ترامیم کی گئی ہیں وہ بھی آئینی عمل کی خلاف ورزی ہے، جبکہ غیر قانونی آرڈیننس کا نفاذ صدر کی طرف سے آرڈیننس کے اجراء کے لیے آرٹیکل 89 میں طے شدہ معیار پر پورا نہیں اترتا، کس بنیاد اور حالات پر صدر پاکستان نے غیر قانونی آرڈیننس کے نفاذ کے لیے خود کو مطمئن کیا۔

درخواست میں یہ بھی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ آرٹیکل 89 صدر کو  اختیارات نہیں دیتا ہے کہ وہ قانون کی دفعات پر مشتمل آرڈیننس جاری کرے۔

درخواست گزار نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے اس متنازعہ آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس غیر قانونی آرڈیننس میں موجود دفعات حد سے زیادہ سخت اورغیر حقیقت پسندانہ ہیں۔

آرڈیننس کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو روکنے کے لیے جو طریقہ فراہم کیا گیا ہے وہ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔

متعلقہ تحاریر