افغان طالبان اور حکومت کا مذاکرات کے طرز عمل پر اتفاق
یہ معاہدہ دراصل ایک اصول ہے کہ کس طرز عمل پر افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کریں گے
افغانستان کی حکومت اور افغان طالبان کے درمیان ملک میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کے تناظر میں ابتدائی معاہدے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ اِس اتفاق کو افغانستان میں جاری خانہ جنگی کی روک تھام کے لیے اہم سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔
افغانستان کی حکومت اور افغان طالبان کے درمیان 19 سال سے جاری جنگ کے دوران پہلے معاہدے پر اتفاق ہوا ہے۔
امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن نادر نادری نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ مذاکرات کے طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اب مذاکرات کا آغاز ایجنڈے سے ہوگا۔
اِس ابتدائی معاہدے کے باوجود فریقین ایک دوسرے کی فورسز پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا عمل جاری ہے۔ اِس سے قبل بھی دیکھا جا چکا ہے کہ افغان طالبان نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران افغان حکومت پر حملے جاری رکھے ہوئے تھے بلکہ دوران مذاکرات مزید تیز کردیئے تھے۔
افغان طالبان اِن حملوں کو مذاکرات کے دوران اپنی بات کا وزن بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اُدھر افغان مصالحتی عمل کے لیے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ بھی کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ فریقین نے تین صفحات کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔
1/4 I welcome the news from #Doha that the two Afghan sides have reached a significant milestone: A three-page agreement codifing rules and procedures for their negotiations on a political roadmap and a comprehensive ceasefire.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) December 2, 2020
واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے معاہدے کے مطابق غیرملکی افواج کو مئی 2021ء تک افغانستان سے نکلنا ہوگا۔ جبکہ اس کے بدلے طالبان کی طرف سے حملے نہ کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔
پاکستان نے افغان فریقین کے درمیان معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بین الافغان مذاکرات کی حمایت جاری رکھے گا۔
اِس ابتدائی معاہدے کے چیدہ چیدہ نکات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ماہر افغان اُمور طاہر خان نے نیوز 360 کو بتایا کہ ‘یہ معاہدہ دراصل ایک اصول ہے کہ کس طرز عمل پر افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کریں گے’۔
طاہر خان نے بتایا کہ اِس معاہدے کا پہلا مرکزی نکتہ ہے کہ فروری میں ہونے والے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان جو مذاکرات ہوئے تھے وہ اِس بین الافغان مذاکرات کی بنیاد ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے
کرسمس تک افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں: ٹرمپ
اِس سے قبل افغان حکومت امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو نہیں مان رہی تھی کیونکہ اُس میں افغان حکومت شامل نہیں تھی۔ تاہم اب افغان حکومت نے اُس معاہدے کو مان لیا ہے۔
طاہر خان کے مطابق معاہدے میں 21 نکاتی طرزعمل پر اتفاق ہوا ہے۔ جن میں اہم نکات ہیں کہ جو ملک مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے وہ سہولت کاری اور میزبانی تو کر سکتا ہے لیکن وہ ملک یعنی قطر مذاکرت میں شریک نہیں ہوسکتا۔
اِس کے علاوہ مذاکرات کے دوران جو فیصلے کیے جائیں گے اُنہیں میڈیا اور دیگر اداروں سے دور رکھا جائے گا۔ جبکہ دستخط شدہ دستاویز کو بھی میڈیا سے دور رکھا جائے گا تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نا ہو۔
اِس کے علاوہ مذاکرات میں جو بھی فیصلے کیے جائیں گے وہ شریعت کے مطابق ہوں گے اور مذاکرات بھی شریعت کے اصولوں کے عین مطابق آگے بڑھیں گے۔ معاہدے میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر کسی بات پر اختلاف ہو تو کمیٹی جائزہ لے گی اور اختلاف کو دور کرے گی۔
اگر مذاکرات کے دوران کوئی افواہ پھیلتی ہے تو فریقین اس کا سد باب کرنے کے لیے ذمہ دار ہوں گے۔
ماہر افغان اُمور طاہر خان نے بتایا کہ معاہدے میں اِس بات پر خاصا زور دیا گیا ہے کہ مذاکرات کے ایجنڈے میں اسلام اور دین کے خلاف کوئی بات شامل نہیں کی جائے گی اور نا ہی افغانستان کے مفادات کے خلاف کسی بات کو ایجنڈے پر لایا جائے گا۔
فریقین صبر اور احترام سے کام لیں گے اور ایک دوسری کی بات سنیں گے۔ طاہر خان کے مطابق طرز عمل پر اتفاق کے بعد دوسرا مرحلہ ایجنڈے کے مندرجات شامل کرنے کا ہوگا۔