پاکستان میں کوئی بھوکا نہیں سوئے گا

حکومت نے ’کوئی بھوکا نہ سوئے‘ کے نام سے پروگرام کا آغاز کردیا ہے جس کے تحت روزانہ 2 ہزار غریب افراد کو 2 وقت کا کھانا مفت مہیا کیا جائے گا۔

پاکستان میں حکومت نے ’کوئی بھوکا نہ سوئے‘ کے نام سے ایک اور پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت روزانہ 2 ہزار غریب افراد کو 2 وقت کا کھانا مفت مہیا کیا جائے گا۔

غریبوں، مزدوروں اور خصوصی افراد کو ٹرکس میں تیار کیا گیا کھانا اسپتالوں، کچی آبادیوں اور عوامی مقامات پر فراہم کیا جائے گا۔

فوڈ ٹرکس کے ذریعے کھانے کی مفت فراہمی

بدھ کے روز وزیراعظم عمران خان نے کوئی بھوکا نہ سوئے پروگرام کا افتتاح کردیا ہے۔ اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ’جلد 3 کروڑ مستحق خاندانوں کو براہ راست سبسڈی دی جائے گی۔ ‘ وزیراعظم عمران خان نے ان علاقوں کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی جہاں لوگوں کو مالی مشکلات کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے تاکہ پروگرام کے تحت ان تک پہنچا جاسکے۔

وزارت سماجی تحفظ و تخفیف غربت کے مطابق یہ پروگرام پہلے مرحلے میں جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں شروع کیا گیا ہے۔ پروگرام کو چلانے کی ذمہ داری پاکستان بیت المال کو سونپی گئی ہے اور کھانا نجی ادارہ سیلانی ٹرسٹ فراہم کرے گا۔

وزارت سماجی تحفظ و تخفیف غربت کے حکام کے مطابق کوئی بھوکا نہ سوئے احساس لنگر پروگرام کی توسیع ہے جس میں غریبوں کو ٹرکس کے ذریعے تیار کھانا پہنچایا جائے گا۔

غذائی قلت اور ابھرتے ہوئے سوالات

پاکستان میں غذائی قلت اور غربت کا معاملہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا حکومت کا کام غریب عوام کو چند شیلٹر ہوم فراہم کرنا یا کوئی بھوکا نہ سوئے جیسے پروگرامز کے تحت محض 3 گاڑیوں کے ذریعے کھانا مہیا کرنا ہے جس سے چند سو یا چند ہزار افراد مستفید ہوں گے؟ یہ کام تو کئی فلاحی ادارے اور مخیر افراد کر رہے ہیں۔ اس سے غربت کا خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ مسئلے کا حل بھی نہیں ہے۔

غذائی قلت کے معاملے پر حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟

حکومت کا کام تو بہتر معاشی پالیسیاں بنانا اور ایسے موقع فراہم کرنا ہے جس کے ذریعے عوام الناس بالخصوص نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ خوراک یا شیلٹر ہوم فراہم کرنا عارضی حل ہے۔ خوراک وغیرہ کی فراہمی نوجوانوں اور محنت کش طبقے کو کہیں محنت سے دور نہ کردے۔

ریاست کا کام ہے کہ وہ معاشرے کے ضعیف، بیمار، معزور، لاچار، بیواؤں، یتیموں، کمسن اور بے سہارا افراد کو روٹی، کپڑا اور شیلٹر فراہم کرے۔ جبکہ دیگر طبقات کو مناسب مواقع، تعلیم و تربیت، ہنر، رہنمائی، قرضوں کی فراہمی اور دیگر اقدامات کے ذریعے خود انحصاری پر مائل کرے۔

ملک میں غذائی قلت کی کیا صورتحال ہے؟

ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 16 فیصد آبادی کو عمومی یا شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کے راست ڈیجیٹل پروگرام کی عالمی سطح پر تعریف

عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق 2020 کے دوران پاکستان میں 30 لاکھ سے زیادہ افراد خاص طور پر بلوچستان اور سندھ کے خشک سالی سے متاثرہ اضلاع میں غذائی عدم تحفظ کا سامنا کررہے ہیں۔ ان میں سے 5 لاکھ سے زیادہ افراد کو ہنگامی یا ایمرجنسی صورتحال کا سامنا ہے۔

کرونا اور معاشی حالات

کرونا کی وباء نے معاشی بحران کو مزید سنگین کردیا ہے جس کے نتیجے میں مارچ 2020 کے بعد سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔ معیشت سکڑ چکی ہے جس کے نتیجے میں بے روزگاری اور غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال کے سبب ملک کا غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جس میں مزدور، کسان، خواتین اور بچے شامل ہیں۔

زرعی ملک میں روٹی کا حصول مشکل کیوں؟

پاکستان کی آبادی کے بڑے حصے کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے۔ ٹڈی دل کا حملہ اور خراب فصلیں بھی غربت کی شرح میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔ موجودہ اور سابق حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے باعث بھی غربت و بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اور یوں افراطِ زر کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو غذائی قلت کا سبب بن رہا ہے۔

50 فیصد آمدن خوراک پر خرچ

ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے عوام کی اکثریت آمدن کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ خوراک کی خریداری پر صرف کرتی ہے۔ اشیائے خوردونوش کی گرانی نے اس کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ قیمتوں کی مانیٹرنگ اور اسے مناسب سطح پر رکھنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ دیگر عوامل کی طرح یہ بھی عوام کے خوراک کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔

91 ارب روپے کی تقسیم

احسان امدادی اسکیم کے تحت وفاقی حکومت نے ساڑھے 7 لاکھ خاندانوں (5 کروڑ افراد) کو 12 ہزار روپے فی کس فراہم کیے ہیں۔

احساس پروگرام

بھوک کا عالمی انڈیکس اور پاکستان کی پوزیشن

بھوک کے عالمی انڈیکس (ورلڈ ہنگر انڈیکس) کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں بھوک کی حالت انتہائی سنجیدہ ہے اور بھوک کے حصے سے پاکستان دنیا میں 94ویں نمبر پر ہے۔

وفاقی وزراء کیا کہتے ہیں؟

وفاقی وزیر برائے مواصلات مراد سعید نے گذشتہ برس جون میں قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں ہر سال ہزاروں لوگ بھوک سے انتقال کر جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’پاکستان میں 25 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ‘

وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی زر تاج گل نے آن لائن ویبینار سے خطاب میں کہا تھا کہ ’2020 گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان 107 ممالک میں 88ویں نمبر پر ہے اور یہ بات خوش آئند نہیں۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی حکومت ملک سے غربت اور بھوک کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔ ملک کو غذائی تحفظ اور غذائیت (نیوٹریشن) کے بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کے لوگوں میں غذائیت کی بے حد کمی ہے جس کی وجہ سے بچوں کی اموات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ‘

قومی غذائی سروے کی رپورٹ

پاکستان میں نیشنل نیوٹریشن سروے کی رپورٹ برائے سال 19-2018 کے مطابق پاکستان میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں 5 سال سے کم عمر کے ہر 10 میں سے 4 بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ‘

رپورٹ کے مطابق ’شہری علاقوں میں 34.8 فیصد اور دیہی علاقوں میں 43.2 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ‘

متعلقہ تحاریر