این اے 133 کا ضمنی انتخاب، ن لیگ فاتح، ووٹر ٹرن آؤٹ 18 فیصد رہا
2018 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مذکورہ حلقے سے 5 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ اب بیک اپ کرتے ہوئے 32 ہزار ووٹ اکٹھے کرلیے ہیں۔
لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 کے ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی شائستہ پرویز ملک نے میدان مار لیا، ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔ پی ٹی آئی کے رہنما جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے ٹرن آؤٹ انتہائی کم ہونے سے ضمنی انتخاب کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگ گیا۔
لاہور کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 133 میں اتوار کے روز پانچ دسمبر کو انتخابی میدان سجا، روائتی حریف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان مقابلہ ہوا۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے الیکشن سے باہر کیا ہوئی حلقے کے لوگوں کی جانب سے ضمنی انتخاب میں عدم دلچسپی نظر آئی، لاہوری حسب معمول اتوار کا روز ہونے کے باعث تاخیر سے ووٹ کاسٹ کرنے نکلے۔
یہ بھی پڑھیے
وزیر دفاع نے سری لنکن مینجر کے قتل کو نوجوانوں کا پاگل پن کہہ دیا
پاکستانی اسٹیج اداکاراؤں کی خفیہ کیمروں سے بنائی گئی ویڈیوز لیک
این اے 133 کے ضمنی انتخاب کےلیے پولنگ کا عمل صبح 8 بجے شروع ہوا جو شام 5 بجے تک بلا تعطل جاری رہا جبکہ صبح کے وقت ووٹرز کا رجحان نہ ہونے کے برابر تھا اور 12 بجے کے بعد لوگ گھروں سے ووٹ کاسٹ کرنے نکلے، دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکنان لوگوں کو گھروں سے پولنگ اسٹیشنز ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے ٹرانسپورٹ سروس کے ساتھ ساتھ کھانوں کا انتظام کرتے ہوئے نظر آئے مگر پھر بھی ضمنی انتخابات میں ٹرن انتہائی کم رہا۔
حلقے میں 4 لاکھ 40 ہزار 485 ووٹرز کے لیے 254 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے۔ جس میں 233558 مرد اور 206927خواتین ووٹرز شامل تھے مگر کاسٹ شد ٹوٹل ووٹ 81895 ہوئے، جس میں 50936 مرد، 30959 خواتین اور 898 ووٹ مسترد قرار پائے اس طرح ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 18.59 فیصد رہا۔
ٹرن آوٹ کم ہونے پر لیگی اور پیپلز پارٹی امیدوار پریشان بھی دکھائی دیئے. مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز نے پارٹی رہنماؤں سے ٹیلی فونک رابطے کرکے ووٹروں کو گھروں سے پولنگ اسٹیشنز پہنچنے کی ہدایات کرتے رہے جبکہ الیکشن رزلٹ آنے کے بعد حمزہ شہباز نے رہنماؤں سے کم ٹرن آؤٹ پر رپورٹ طلب بھی کر لی ہے۔ دوسری جانب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی انتخابی عمل کی نگرانی کرتے رہے.
کم ٹرن آؤٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "کم ٹرن نے ثابت کردیا کہ اگر میدان میں پی ٹی آئی نہیں ہوگی تو عوام دیگر پارٹیوں کو بھی ووٹ ڈالنے کو تیار نہیں۔”
کل 440,400میں سے صرف 18% ووٹ پڑا۔ باقی 82% ووٹ نہ پڑنے سے واضح ہو گیا کہ خان میدان میں نہ بھی ہو تو پاکستانی عوام ان پارٹیوں کو اکثریتی ووٹ دینے کو تیار نہیں بلکہ اب یہ 10 سے15 فیصد سے کم کی پارٹیاں ہیں۔یہ بھی واضح ہو گیا کہ لاہور کے لوگ ن اورpp کوتقریباً برابر ہی سمجھتےہیں
2/2— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) December 6, 2021
این اے 133 کے الیکشن کمیشن کو تمام 254 پولنگ اسٹیشنز کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج بھی نیوز 360 کو موصول ہو چکا ہے۔
نتائج کے مطابق این اے 133 کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کی امیدوار شائستہ پرویز ملک نے 46811 ووٹ حاصل کئے اور فاتح قرار پائی. پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل نے 32313 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر آئے جبکہ تیسرے نمبر پر آزاد امیدوار حسیب اللہ نے 650 ووٹ حاصل کئے۔ ضمنی انتخابات میں کل 11 امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔
این اے 133 میں پی ٹی آئی رہنما جمشید اقبال چیمہ نے ضمنی انتخاب میں ٹرن آؤٹ کم ہونے پر دونوں جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے بیان میں کہا کہ ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہنے سے ثابت ہوگیا عوام نے ضمنی انتخاب کو مسترد کر دیا۔ ٹرن آؤٹ انتہائی کم ہونے سے ضمنی انتخاب کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگ گیا ۔ تحریک انصاف کو میدان سے باہر کرنے پر عوام نے احتجاجاً ووٹ کاسٹ نہیں کئے۔ سب سے بڑی سیاسی جماعت کی شمولیت کے بغیر ضمنی انتخاب کی کوئی حیثیت نہیں۔ عوام نے ضمنی انتخاب سے لا تعلق رہ کر دونوں جماعتوں کی نوٹوں کی چمک کو مسترد کر دیا۔ لا تعلق رہ کر حقیقی معنوں میں ووٹ کو عزت دینے پر ووٹرز تحسین کے مستحق ہیں۔
واضح رہے کہ لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 کی نشست (ن) لیگ کے پرویز ملک کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔
این اے 133 کے ضمنی انتخاب میں کم ٹرن آؤٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ووٹرز ٹرن آؤٹ کم رہا یا پھر عوام انتخابی مرحلے سے فرار اختیار کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عوام جمہوری پروسیس سے تنگ آچکے ہیں یا پھر ن لیگ کا ووٹر اپنی ملک سے فرار لیڈرشپ سے ناراض ہے۔ تاہم جو حقائق ہیں وہ پریشان کن ہیں۔
تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ ہار جیت ہر کھیل کا حصہ ہوتی ہے مگر ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی نے بڑا اپ دیتے ہوئے عام انتخابات کی نسبت 32 ہزار ووٹ حاصل کر لیے ہیں جو کہ مستقبل قریب میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹر نے ن لیگ کی مخالفت میں پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈال دیئے ہوں یا پھر پی پی پی پنجاب میں دوبارہ قدم جما رہی ہے۔ تاہم کچھ ہو بھی ن لیگ کو خطرے کی بو سونگ لینی چاہیے کہیں دیر نہ ہو جائے۔