خیبر پختون خوا کے دارالحکومت کا آدھی صدی پرانا چترالی بازار اپنی ثقافت کی پہنچان

خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور میں موجود چترالی بازار چترال کے ثقافتی ملبوسات اور ریشمی کپڑوں سے تیار کردہ  کوٹ واسکٹ، چوغہ، پکول، چادر اور ایسی بہت سی چترالی ثقافتی چیزوں کیلے مشہور ہے۔ سردی کی موسم صوبہ بھر سے لوگ اس بازار کا رُخ کرتے ہیں. 

پاکستان کی آزادی سے قبل 1943 میں اس بازار کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ تاریخ کے اعتبار سے چترالی بازار ایک بین الاقوامی اور منفرد بازاروں میں شمار ہوتا ہے. پاکستان کی آزادی سے قبل پشاور میں لوگ کاروبار کی غرض سے آتے تھے جن میں اس  وقت سے چترال کے مقامی لوگ بھی یہاں پر اپنی تیار کردہ مصنوعات بیچتے تھے۔ بعدازاں اس بازار میں چترالی صنعت  کاروں نے اپنی صنعت  لگائی اور چترال میں بنائی جانے والی ٹوپی، چوغہ، واسکٹ یہاں پر بنانا شروع کی۔ ابتداء میں یہ کاروبار چھوٹے پیمانے پر تھا اور آج ان مصنوعات کی وجہ سے چترالی بازار کی پہچان ہے۔

چترالی بازار میں تقریباً 2000 کے قریب دوکانیں موجود ہیں اور تقریباً 30 ہزار سے زیادہ کاریگر کام کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف برادریوں کے لوگوں نے یہاں کاروبار شروع کیا۔ لیکن آج بھی اکثریت چترال کے مقامی لوگوں کی ہے۔ چترالیوں کے علاوہ یہاں سوات ،باجوڑ، دیر، افغانستان اور پشاور کے مقامی لوگ بھی کاروبار کرتے ہیں۔

اس بازار کا ‘چوغہ’ سب سے مشہور ملبوسات میں سے ایک ہے۔ چوغہ ریشمی کپڑے سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کپڑے پر گُلکاری ہاتھوں سے کی جاتی ہے۔ جب باہر کے لوگ سیاحت کے لیے پشاور آتے ہیں تو چترالی بازار کا رُخ ضرور کرتے ہیں۔ گرم ٹوپی، واسکٹ اور چوغہ میں جو مٹیریل استعمال ہوتا ہے وہ زیادہ تر چترال سے منگوایا جاتا ہے۔ اب سوات اور زیادہ تر چائنہ کا مٹیریل استعمال ہوتا ہے۔

اگر حکومتی سطح پر اس کاروبار پر توجہ دی جائے تو تو چترالی بازار ملک کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا بھر میں معیشت کی تکنیکی زبان کو سمجھنے والے افراد بہت کم ہیں، فہیم احمد

میں نے رائیٹنگ کو نہیں رائیٹنگ نے مجھے چنا ہے، ڈرامہ نگار زنجبیل عاصم

متعلقہ تحاریر