وزیراعلیٰ سندھ نے صوبے میں 50 ہزار نئے اساتذہ کی بھرتی کا عندیہ دے دیا
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سید مراد علی شاہ آنے والے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے نئے اساتذہ کی بھرتی کا پلان سامنے لائے ہیں۔
کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے باقی ماندہ 4250 غیر فعال اسکولوں کو فعال کرنے کے لیے اساتذہ کی بھرتی کی پالیسی 2021 پر نظر ثانی کرنے کے بعد پاسنگ مارکس کے معیار کو مسلم مرد کے 55 فیصد اور خواتین اور اقلیتی امیدواروں کے 50 فیصد سے کم کر کے 40 فیصد کرنے کا اعلان کیا تاکہ اساتذہ کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔
پہلے بھرتی پالیسی یونین کونسل کی سطح پر تشکیل تھی اور اب اسے تعلقہ کی سطح پر تشکیل دیا گیا ہے، اس لیے ان تمام امیدواروں کو بھرتی کیا جائے گا جنہوں نے کم از کم 40 فیصد نمبر حاصل کیے ہوں گے اور یہ آسامیاں متعلقہ تعلقہ میں دستیابی سے مشروط ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
سارے سندھ میں میٹرک کے پرچے آؤٹ ، کھلے عام نقل کلچر کا راج
سکھر شہری اتحاد کے زیراہتمام افواج پاکستان زندہ باد ریلی کا انعقاد
اس بات کا اظہار انہوں نے منگل کو یہاں وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ، وزیر آبپاشی جام خان شورو، مشیر قانون مرتضیٰ وہاب اور متعلقہ سیکرٹریز بھی موجود تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پی ایس ٹی اور جے ای ایس ٹی اساتذہ کی بھرتی کا بنیادی مقصد اسکولوں میں اساتذہ کی فراہمی اور تعلیمی نظام کو زوال پذیر ہونے سے بچانا ہے کیونکہ اساتذہ کی شدید کمی کے باعث ہزاروں اسکول غیرفعال ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت 54,000 اساتذہ، بشمول 36,000 پرائمری اسکول ٹیچرز اور 18,000 جونیئر ایلیمنٹری اسکول ٹیچرز کی آسامیاں صوبہ بھر میں خالی پڑی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اساتذہ کی اشد کمی کو محسوس کرتے ہوئے ، ان کی فوری تقرری اور تربیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ ٹیچرز ریکروٹمنٹ پالیسی 2021 میں نرمی اور ترمیم کی ضرورت ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ 6,783 فعال اسکول جو اساتذہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند رہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ بھرتی کے عمل کے ذریعے 2,533 اسکول دوبارہ کھولے جا چکے ہیں لیکن اب بھی 4,250 اسکول غیر فعال ہیں ۔
ان کا کہنا تھا اس لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کی بھرتی کی پالیسی 2021 پر نظر ثانی کی جائے اور پاسنگ مارکس کے معیار کو مسلم مرد کے لیے 55 فیصد سے کم کیا جائے۔ اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے خواتین اور اقلیتی امیدواروں کے لیے 50 فیصد سے کم کرکے تمام امیدواروں کے لیے 40 فیصد کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ معذور امیدواروں اور ہارڈ ایریاز کے لیے پاسنگ مارکس پہلے کی طرح 33 فیصد رہیں گے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پاسنگ مارکس کو 40 فیصد تک کم کرنے کے بعد بھی 18 تعلقوں میں اساتذہ کی کمی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ مختلف اضلاع کے ان 18 تعلقوں میں 40 فیصد سے کم نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کو اسپیشل کورس کے ذریعے شرکت کرنے کا موقع دیا جائے گااور ان کی بھرتی کے لیے تیسرے فریق کی جانب سے ٹیسٹ لیا جا ئے گا ۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ پالیسی پر نظرثانی کے بعد تمام بند پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کو فعال کرنے کے لیے 50 ہزار سے زائد اساتذہ کو بھرتی کیا جائے گا۔
امن و امان:
دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ شہر میں ایک ماہ کے اندر تین دہشت گردی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں خاص طور پر امن و امان قابو میں ہے لیکن سماج دشمن عناصر اور دہشت گردی عناصر نے ریاستی بدامنی پھیلانا شروع کر دی ہے لیکن ہم انہیں ان کے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ جب بولٹن مارکیٹ کا واقعہ پیش آیا تو اُس وقت وہ پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ متحدہ عرب امارات کے حکمران کی وفات پر تعزیت کے لیے ابوظہبی میں تھے۔
انہوں نے کہا کہ واقعہ کا سن کر میں نے اپنا دورہ مختصر کیا اور واپس کراچی پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ 1 بج کر 15 منٹ پر میں نے متعلقہ پولیس افسران کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ انہوں نے پولیس اہلکاروں کو بتایا ہے کہ یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے کہ یکے بعد دیگرے تین واقعات ہوئے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ جب ایک دہشت گرد بیگ لے کر کراچی یونیورسٹی میں داخل ہوا تو اس کے بیگ کی جانچ کیوں نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پولیس شہریوں کوآگاہی فراہم کرے کہ وہ جب بھی کوئی مشکوک سرگرمی دیکھیں تو 15 کو اطلاع دیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس مارکیٹ کے دکانداروں سے بات کرے گی کہ وہ اپنی پارکنگ میں مناسب چوکسی رکھیں اور اپنا پرائیویٹ سی سی ٹی سسٹم لگائیں۔
سندھ میں پانی کا بحران
پانی کی قلت کے بارے میں بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سسٹم میں پانی کی کمی ہے لیکن ہم جس مسئلہ کا سامنا کر رہے ہیں وہ پانی کی تقسیم کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کو ارسا کے خلاف شدید تحفظات ہیں۔
سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ صوبوں کو بتایا گیا تھا کہ خریف کے دوران پانی کی آٹھ فیصد کمی ہوگی اور خریف کے شروع میں سندھ اور پنجاب کو 22 فیصد اور 13 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، حقیقت یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب میں پانی کی قلت برابر ہونی چاہیے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ اپریل میں سندھ کو 42 فیصد قلت کا سامنا تھا اور اگر مئی کے 10 دن کا اضافہ کیا جائے تو سندھ میں پانی کی قلت 51 فیصد ہوجائے گی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ آج (منگل کو) دریائے سندھ میں تربیلا پر پانی کا بہائو 89,800 کیوسک ہے اور گذشتہ سال یہ 60,400 کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی جس کا مطلب ہے کہ اس سال ہمارے پاس 29,400 کیوسک پانی زیادہ ہے اس کے باوجود سندھ کو گزشتہ سال کی نسبت زیادہ پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
گزشتہ سال کابل میں پانی کا بہائو 41900 ریکارڈ کیا گیا تھا تھ اور جہلم میں 175000 تھا اور یہ 188000 کیوسک ہے لیکن تقسیم درست نہیں – پنجاب میں لنک کینال کھول دی گئی ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ تونسہ پنجاب کا آخری بیراج ہے اور گڈو سندھ کا پہلا بیراج ہے۔ جب ٹوانہ میں پانی کا بہائو ریکارڈ کیا گیا تو یہ 6,6000 کیوسک تھا اور جب یہ ہمارے پہلے بیراج، گڈو پر پہنچا تو یہ 38,000 کیوسک پر آگیا۔اس کا مطلب ہے کہ سندھ پہنچنے سے پہلے پانی چھین لیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ بدھ کو اسلام آباد جا رہے ہیں اور پانی کی تقسیم کے معاملے کو حل کرنے کی درخواست کے ساتھ وزیر اعظم سے ملاقات کریں گے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ صوبے بھر سے اساتذہ کی بھرتی کا پلان لائے ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ جن جن اساتذہ کو بھرتی کیا جائے گا ان سے ووٹ کا حلف بھی لیا جائے گا۔