شرح سود میں اضافے کے باوجود اپریل میں آٹو فنانسنگ میں0.9فیصد کا اضافہ

اپریل 2022 میں موبائل آٹو فنانسنگ کا حجم بڑھ کر 367ارب تک پہنچ گیا،آٹو فنانسنگ میں ترقی کی رفتار کم ہو رہی ہے،دسمبر 2020 کے مقابلے میں 31 دسمبر 2021 تک اس میں 38 فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ رواں سال کے پہلے 4 مہینوں میں آٹو فنانسنگ میں صرف 3.8 فیصد اضافہ ہوا ہے

مرکزی بینک کی پابندیوں،قیمتوں میں اضافے اور بڑھتی ہوئی شرح سود کے باوجود مارچ کے مقابلے اپریل میں آٹو فنانسنگ( قرض لیکر گاڑیوں کی خریداری) 0.9 فیصد بڑھ کر 366.79 ارب  روپے تک پہنچ گئی۔

گاڑیوں کی خریداری کیلیے  بینکوں کی طرف سے رقم کی فراہمی رواں مارچ کے آخر تک 363.55 ارب روپے رہی۔گزشتہ سال کے اسی عرصے سے موازنہ کیا جائے تو اپریل 2021 کے 293ارب روپے کے مقابلے میں رواں سال آٹوفنانسنگ 74 ارب روپے یا  25 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے

اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود میں 1.5 فیصد اضافہ

نیشنل سیونگز فوری ادائیگی کے نظام ”راست “سے منسلک

مرکزی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق آٹو فنانسنگ میں ترقی کی رفتار کم ہو رہی ہے۔ دسمبر 2020 کے مقابلے میں 31 دسمبر 2021 تک اس میں 38 فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ رواں سال کے پہلے 4 مہینوں میں آٹو فنانسنگ میں صرف 3.8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق نے کہا  ہے کہ پرانی بکنگ کی وجہ سے موجودہ فنانسنگ میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم اسٹیٹ بینک کے ضوابط میں تبدیلی، شرح سود میں اضافے اور گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ماہانہ ادائیگیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے لہٰذا نئی کاروں کیلیے قرضوں کے حصول میں نمایاں کمی آئے گی اور  اس کا اثر کچھ مہینوں میں نظر آئے گا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ 13.75 فیصد  کی ریکارڈ  شرح سود کے باعث قرض کی شرح میں کمی آئے گی۔ اسٹیٹ بینک نے آٹو صارفین کی پریشانی میں اضافہ کرتے ہوئے ایک اور پابندی عائد کردی ہے ۔ نئی پالیسی کے تحت 1000 سی سی تک کی  گاڑیوں کیلیے آٹوفنانس کی مدت 5 سال سے کم کرکے 3سال کردی ہے جبکہ 1000 سی سی سے زائد کی گاڑیوں کیلیے آٹوفنانسنگ کی مدت 7 سال سے کم کرکے 5 سال کردی ہے۔

یہ پالیسی تمام مقامی طور پر اسمبل شدہ الیکٹرک گاڑیوں کی  فنانسنگ پر بھی لاگو ہوگا تاہم اس پالیسی کا اطلاق  ”روشن اپنی کار“ کے مالیاتی نظام  پر نہیں ہوگا۔

اسٹیٹ بینک نے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کی کوشش میں بڑھتی ہوئی طلب کو روکنے کے لیے گزشتہ سال ستمبر میں آٹو فنانسنگ پر بھی پابندیاں عائد کی تھیں۔

مرکزی بینک  درآمدات کو کم کرنے کے لیے آٹو فنانسنگ پر پابندیاں لگا رہا ہے کیونکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گر رہے ہیں اور فی الحال 10.1 بلین ڈالر پر کھڑے ہیں – جو دو ماہ کے درآمدی بلوں کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

انڈسٹری کے حکام کے مطابق آٹو فنانسنگ کے ذریعے خریدی جانے والی کاروں کی تعداد ملک میں فروخت ہونے والی کل کاروں کے 30 فیصد سے 40 فیصد کے درمیان ہے اور ماہرین سود کی شرح میں اضافے اور پابندیوں کو آٹو انڈسٹری کی فروخت پر اثر انداز ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

متعلقہ تحاریر