سادھو بیلہ کی تاریخی اہمیت

سادھو بیلہ کا ذکر تاریخ میں پہلی بار 476 سال قبل تب ملتا ہے جب ہمایوں بادشاہ کا چھوٹا بھائی کامران مرزا سندھ میں آیا اور اس کی شادی اس وقت کے سندھ کے حکمران شاہ حسن بن شاہ بیگ ارغون کی بیٹی چوچک بیگم کے ساتھ ہوئی۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں روہڑی اور سکھر شہر کے عین درمیان میں صدیوں سے قائم سادھو بیلہ کا مقام ہے۔ جس طرح یہ مقام کافی منفرد ہے اسی طرح اس کی تاریخ بھی بہت منفرد اور دلچسپ ہے۔

اس جزیرے پر انسانی موجودگی کے آثار چار پانچ سو سال قبل ملتے ہیں۔ مسلمانوں نے اسے دین بیلا (یعنی دین کا جنگل) انگریزوں نے اپنی لکڑیوں کے گودام کے لیے اسے نیوی وڈ لینڈ پکارا تو ہندوؤں نے اسے سادھوؤں کی آمد کے باعث سادھو بیلا کہا۔

بیلا سندھی میں جنگل کو کہتے ہیں۔ اس لیے ہندوؤں اور انگریزوں اور مسلمانوں نے جب بھی اسے کوئی نام دیا تو اس میں بیلا یعنی جنگل کے لفظ کا استعمال ضرور کیا۔

سادھو بیلہ کا ذکر تاریخ میں پہلی بار 476 سال قبل تب ملتا ہے جب ہمایوں بادشاہ کا چھوٹا بھائی کامران مرزا سندھ میں آیا اور اس کی شادی اس وقت کے سندھ کے حکمران شاہ حسن بن شاہ بیگ ارغون کی بیٹی چوچک بیگم کے ساتھ ہوئی۔ اس کے بعد 1007 ہجری میں میر معصوم شاہ بکھری نے اس خوبصورت جزیرے میں ایک ستیاسر نامی عمارت تعمیر کروائی۔

 کہا جاتا ہے کہ میرے سادھ بیلا کے اندر شروعاتی دور میں پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث یہ جزیرہ ڈوب جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے کشتیاں جزیرے سے ٹکرا جاتی تھیں اس لئے میر معصوم شاہ نے جزیرے میں کشتیوں اور بیڑوں کی رہنمائی کے لئے ایک گنبد تعمیر کروایا۔ تاکہ گنبد دور سے نظر آئے اور اس جزیرے کی نشاندہی کرے اس طرح کشتیاں اور بیڑے اس جزیرے سے بچ کر اپنا سفر محفوظ طریقے سے جاری رکھ سکیں۔

سادھو بیلہ

اس کے بعد 1824 عیسوی میں میر رستم خان نے شکارپور اور بکھر کا علاقہ چھین کر جب اسے خیرپور ریاست میں شامل کیا تو اس جزیرے پر کوئی توجہ نہ دی. اس زمانے میں سادھ بیلا میں کھجور کے درخت اور جنگل آباد تھا انہی ایام میں 1823 عیسوی میں ہندو دھرم کے ایک نیپالی باشندے جو سادھو تھے ان کا نام بن کھنڈی تھا ان کی پیدائش 1762ء میں نیپال میں ہوئی۔

تقریبا 58 سال کی عمر میں راجستھان سے ہوتے ہوئے روہڑی کے راستے سے اس جزیرے پر پہنچے اور وہیں اپنی پوجا اور گیان کے لیے انہوں نے اس مقام کو موضوع قرار دیا۔ بابا بنکھنڈی مہاراج دریا میں بہہ کر آنے والی لکڑیاں جمع کر کے آگ جلاتے اور دھنویں میں اپنی پرارتھنا اور پوجا پاٹ کرتے۔

 اس وقت خیرپور کے شاہی تخت پر ہندوؤں کا کافی اثر رسوخ تھا۔ ہندوؤں کے اثر رسوخ کی وجہ سے کسی کو مجال نہ تھی کے کوئی بن کھنڈی سادھو کو اس جزیرے سے بے دخل کرتا۔ اور ریاست خیرپور کے والی میر رستم خود بھی درویش صفت انسان تھے جنہوں نے سادھ بیلا آستان پر بسنے والے ہندو سادھوؤں کو کبھی پریشان نہ کیا۔

سادھو بیلہ

1838 عیسوی میں انگریزوں نے جب بکھر کے قلعے پر قبضہ کیا تو بن کھنڈی مہاراج کے پتھروں سے بنائے گئے 4 بتوں کو جیسے کا تیسا رہنے دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندو پوجا پاٹ کے لیے یہاں آتے تھے اور یہ جزیرہ ہندوؤں کا تیرتھ اور عبادت گاہ بنتا جا رہا تھا۔ یہ تیرتھ سادھ بیلا آشرم اور اُداسی آشرم کہلانے لگا۔

1893 میں سکھر کے ایک تاجر کے بیٹے ہرنام داس نے جب سادھ بیلا میں گدی نشین کے طور پر ذمہ داری سنبھالی تو سادھ بیلا  جزیرے کے عین درمیان ایک عالیشان محل نما عمارت تعمیر کروائی۔ جزیرے کے پرانے مرکزی دروازے کو گرا کر سنگ مرمر کا نیا داخلی دروازہ تعمیر کروایا جس کی دیواروں پر سوارگ یعنی جنت اور نرگ یعنی دوزخ کا حال تصویری خاکوں میں بیان کیا گیا ہے۔

 یاتریوں کی آمد و رفت کے لیے مسجد منزل گاہ کے قریب نیوی وڈ لینڈ  جسے مسلمان دین بیلا پکارتے تھے کو مٹی ڈلوا کر ہموار کیا اور دونوں  حصوں کو ملا دیا گیا۔ کیونکہ اس ملاپ سے قبل سادھ بیلا دو جزیروں پر مشتمل تھا اور دونوں حصوں کے بیچ سے دریا بہتا تھا۔

اس کے بعد چاروں طرف مضبوط دیوار تعمیر کروا دی گئی۔ جہاں ایک خوبصورت باغ بھی تعمیر کیا گیا۔ سادھ بیلا تیرتھ میں پوجا پاٹ کے اوقات کے اعلان کے لیے ایک بڑا آہنی گھنٹا بھی نصب کیا گیا جس کو ہلانے پر آواز دریا کے چاروں طرف گونجتی اور اندرونی عمارتوں سے ٹکراکر بازگشت پیدا کرتی۔

سادھو بیلہ

پاکستان کے قیام کے وقت ہندوؤں کی بڑی تعداد کے ہندوستان منتقل ہونے کے باعث ہرنام داس بھی بمبئی منتقل ہوگئے ان فسادات میں دونوں اطراف سے کافی جانی نقصان ہوا جس کے بعد سادھ بیلا تیرتھ میں وہ رونقیں نہیں رہیں جو کبھی یہاں ہوا کرتی تھیں۔ جس کے بعد اب صرف ہاڑ (جولائی) کے مہینے میں 12، 13 اور 14 تاریخوں پر سالانہ میلہ لگتا ہے جسے بابا بنکھنڈی مہاراج کا میلہ کہتے ہیں۔

سادھ بیلا تیرتھ کا انتظام اب ہندو پنچائت کمیٹی سنبھالتی ہے تاہم سیاحوں کی آمدورفت سال بھر جاری رہتی ہے جو دنیا بھر سے یہاں اس دریائی جزیرے پر مشتمل خوبصورت مقام کی سیر کو آتے ہیں۔

تقریباً ہر مذہب کے لوگ سادھ بیلا کے تاریخی مندر کی سیر کو آتے ہیں جو اسقدر قدرتی حُسن سے مزین مقام کی تعریف کے ساتھ ساتھ یہاں محکمہ اوقاف کی غفلت و لاپرواہی پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔

کراچی سے آئے ہوئے ایک مسلمان سیاح ابو حمود محمد نے نیوز 360 سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان سیاحت کے حوالے سے کافی مالامال ہے میں نے انٹرنیٹ پر سادھ بیلا کو دیکھا تو یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔ سادھ بیلا جیسے قدیم تاریخی ورثے کا اب تک اس حال میں قائم رہنا حیرت انگیز ہے لیکن اس تیرتھ کے منتظمین اور حکومت کی جانب سے سیاحوں کو معلومات کی فراہمی کے حوالے سے گائیڈ مہیا نہ کرنا یقیناً افسوسناک ہے۔

سادھو بیلہ

اتنی دور سے آنیوالوں کو ہندو دھرم، سادھ بیلا کی تاریخ اور اسقدر اہم ورثے کے بارے میں بتانے والا کوئی نہیں۔ یہاں کی لائبریری انتہائی خستہ حالت میں ہے۔

رضوان احمد نامی سیاح نے نیوز 360 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سادھ بیلا میں حکومتی توجہ کی شدید ضرورت ہے یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہے اور جب کہ پاکستان میں تمام مذاہب کو مذہبی آزادی بھی حاصل ہے تو ان کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال بھی اتنی ضروری ہے جس پر محکمہ اوقاف فوری طور پر توجہ دے۔

ایک اور سیاح امداد چنہ نے نیوز 360 سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”ہندوؤں کی اتنی خوبصورت جگہ اس سے قبل نہیں دیکھی جو دریا کے عین بیچ میں واقع ہو. حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے نایاب قومی ورثے کو نہ صرف محفوظ بنایا جائے بلکہ اس کے فروغ کیلئے بھی ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔‘‘

متعلقہ تحاریر