خسارے کا شکار پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین برطرف

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پاکستان اسٹیل ملز میں بے شمار بھرتیاں کی گئیں۔ آج بھی ایک آسامی پر 4 سے 5 افراد موجود ہیں۔

پاکستان میں سرکاری شعبے میں اسٹیل بنانے والے ملک کے واحد ادارے پاکستان اسٹیل ملز کے 4 ہزار 544 ملازمین برطرف کردیئے گئے۔ فارغ کیے جانے والے ملازمین میں گروپ 2، 3، 4 کے علاوہ جونیئر آفیسرز، اسسٹنٹ مینجرز اور ڈویژنل مینجرز بھی شامل ہیں۔

گزشتہ روز پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین نے برطرفیوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ یہاں تک کہ مظاہرین نے ٹائرز نذرآتش کر کے نیشنل ہائی وے بلاک کردی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف نے بےشک اقتدار میں آنے سے قبل ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے کیے تھے۔ لیکن اس بات سے بھی اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ حالات کی سنگینی کا اندازہ اور حقیقتوں سے پردہ حکومت میں آنے کے بعد ہی اٹھتا ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز کے بارے میں ایک عرصے سے کہا جارہا ہے کہ یہ ‘سفید ہاتھی’ ہے۔ اس کو سنبھالنا ہر دور میں ہر حکومت کے لیے مشکل ترین امر رہا ہے۔ 1973ء میں 25 ارب کی لاگت سے بننے والی اسٹیل ملز نے 80 اور 90 کی دہائی میں منافع کمایا۔ تاہم 2009ء سے خسارے کا شکار ہے۔

وفاقی وزیر صنعت وپیداوار حماد اظہر نے 15 جولائی کو ادارے کا خسارہ 225 ارب روپے تک پہنچنے کی خبردی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

پام کی کاشت کے لیے لیبارٹری قائم کی جائے گی

سال 2015ء میں (ن) لیگ کے دورحکومت میں اسٹیل ملز کو بند کردیا گیا تھا۔ اِس سے قبل 2008ء میں پیپلزپارٹی نے ادارے میں بےشمار بھرتیاں کیں تھیں۔ آج بھی ایک آسامی پر 4 سے 5 افراد موجود ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز نجکاری کیس

اداروں کے لیے تنظیم نو کا عمل ضروری ہے۔ تاہم 2006ء میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں نجکاری کی کوشش پر معاملہ عدالت پہنچ گیا تھا۔ اس وقت ادارہ منافع کمانے لگا تھا۔ متعدد کمپنیاں اسے خریدنے پر رضامند بھی تھیں۔ لیکن سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جانب سے اسٹیل ملز نجکاری کیس کے خلاف فیصلہ سنایا گیا۔

حماد اظہر کے مطابق اب اسٹیل ملز کو پرائیویٹ شراکت داروں کے ساتھ مل کر چلایا جائے گا، نجکاری نہیں ہوگی۔

متعلقہ تحاریر