کورونا ہے۔۔۔ بڑھ رہا ہے

صبح دفترجانے کےلئے رکشے میں بیٹھی تو ڈرائیور موصوف بغیر ماسک کے بیٹھے تھے۔ میں نے کہا بھائی ماسک کہاں ہےتو بولا باجی جیب میں ہے کوئی پولیس والا نظر آتا ہے تو لگاتا ہوں۔ میں نے کہا بھیا اس کی بھی زحمت کیوں کرتے ہو؟ تو ماوے سے پیلے ہونے والے دانت دکھا کر کھسیائی ہوئی ہنسی ہنس کے خاموش ہوگیا۔

  رکشے والے کا حال نہیں، آپ کہیں بھی نظر دوڑائیے آپ کو ایسے ہی بغیر ماسک کےچہرے نظر آئیں گے۔

چاہے وہ پبلک بس کا ڈرائیور ہو یا پھر اس کا کنڈیکٹر، بولٹن مارکیٹ کے دوکاندار ہوں یا پھر جوڑیا بازار کے ہول سیلرز۔ کیا دوکاندار اور کیا خریدار سب ہی ماسک پہننے سے مبرا نظر آتے ہیں۔ جن کے چہرے پر ماسک  ہوتے بھی ہیں وہ اتنے گندے میلے ہوچکے ہوتےہیں  کہ اگر کورونا خود سونگھ لے تو بدبو سے مر جائے۔

کراچی ہو یا لاہور یا کوئی اور شہر۔کہیں بھی چلے جائیے کم لوگ ہی احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے نظر آئیں گے۔ جلسے بھی ہورہے ہیں جلوس بھی نکل رہے ہیں شادی بیاہ بھی دھوم دھام سے ہورہےہیں۔ مجالس اور میلاد میں بھی کہیں کوئی کمی نہیں نظر آئی۔ جنازوں میں تو عوام انتہائی خشوع اور خضوع سے شریک ہورہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جب 16 سال بعد کراچی میں بس کا سفر کیا

یہی نہیں بازاروں میں رش، منڈیوں میں جم غفیر، بسوں اور ٹرینوں کا برا حال ہے۔ مختصر یہ کہ جہاں نظر دوڑائیں بس بے احتیاطی ہی نظر آرہی ہے۔ کرکٹ ٹیم کے پے درپے کورونا ٹیسٹ اسی بات کی غمازی کرتے ہیں کہ لوگوں کی غیر سنجیدگی کسی طور ختم نہیں ہورہی ۔

اور بے احتیاطی کا تو یہ حال ہے کہ عدالتوں میں کورونا زدہ وکیل اورگواہ پیش ہورہے ہیں۔ یہاں تک کہ کورونا زدہ ملزمان کو بھی عدالت میں پیشیوں کے لئے لایا جارہا ہے۔

اور ابھی پچھلے ہفتے ایک کورونا زدہ معطل افسر نے جو کیا وہ تو سب نے ہی سناہوگا۔ اگرنہیں سناتو آپ کو بتادیتے ہیں کراچی میں بلدیہ کے دفتر میں معطل کیاجانےوالا شخص اپنے افسر کے گلے لگ گیا یہی نہیں اسے گال پر بوسہ بھی دیا اور بعد میں بتایا کہ مجھے تو کوروناہے۔ اس کے بعد تو دفتر میں بھگدڑ مچ گئی ۔ کوئی ادھر بھاگا تو کوئی ادھر۔

 شام کو جب میں گھر واپس پہنچی تو اپنی گلی سے پہلے 2 گلیوں میں شامیانے لگے دیکھے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ایک گلی تقریب کی وجہ سے بند کی گئی ہےاور دوسری گلی کے تین گھروں میں کورونا کیسز ہیں اس لئے اسے سیل کیا گیا ہے۔ بےساختہ میں نے اپنا سر پیٹ لیا۔

ہمارے عوام کا یہ حال ہے کہ موت گھر کی دہلیز تک آپہنچی ہے لیکن اپنے تمام جا اور بے جا فرائض پورے کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جنہیں آج تک کورونا نظر نہیں آیا۔  ماسک لگانےکوکہو تو سوال کرتے ہیں ارے بھائی کہاں ہے کورونا؟ تو جناب آپ لوگوں کے لئے یہی جواب ہے کہ جیسے خدا نظر نہیں آتا ویسے ہی کورونا ہے۔

کورونا ایک ایسا عفریت ہے جو دانت پیستے ہوئے آپ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بڑے بوڑھے کہہ گئے کہ وبا جب پلٹ کر آتی ہے تو جان لے کر ہی جاتی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا بھی جان ہی لے کر چھوڑ رہی ہے۔ عوام کےلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر اب بھی عقل استعمال نہ کی تو جنازے پڑھنے کےلئے لوگ بھی کم پڑ جائیں گے۔

متعلقہ تحاریر