اسلام آباد یونائیٹڈ نے مصباح کو ہٹایا یا جان چھڑائی؟

پاکستانی ٹیم کو اوپر سے نیچے لانے والے شخص کے ساتھ کیا ہونا چاہئے یہ اسلام آباد ہونائیٹڈ کو تو معلوم ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کو نہیں۔

پاکستان سپر لیگ کی کرکٹ ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ ایونٹ کی واحد ٹیم  ہے جس نے 2 مرتبہ ٹرافی جیتی اور دونوں بار اس کے  کپتان مصباح الحق تھے جن کی بیٹنگ، آن فیلڈ فیصلوں اور جارح حکمت عملی کی وجہ سے ٹیم نے شاندار کامیابیاں سمیٹیں۔لیکن بعد میں ایسا لگتا ہے اسلام آباد یونائٹڈ نے مصباح الحق سے جان چھڑائی۔ فتوحات کے بعد جان چھڑانے کی نوبت کیسے آئی؟

لیکن پانچویں سیزن میں اسی ٹیم نے بدترین کارکردگی دکھائی اور اس کی بھی وجہ تھے مصباح الحق جو اب کوچ بن چکے تھے۔ لیکن اُس وقت وہ نا جارح مزاج رہے اور نہ ہی ان کے فیصلوں کا وہ نتیجہ نکلا جس کی انہیں امید تھی۔

پی ایس ایل کے چھٹے سیزن سے قبل ہی اسلام آباد یونائیٹڈ اور مصباح الحق  کی راہیں جدا ہوگئیں۔ فرینچائز مالکان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مصباح الحق کے قومی ٹیم کے ساتھ منسلک ہونے پر یہ فیصلہ کیا۔ لیکن کیا پی ایس ایل کی سب سے کامیاب فرینچائر کے عہدیداران نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی آڑ میں مصباح الحق سے جان تو نہیں چھڑائی؟

کیا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنلز میں ناکامی مصباح کی برطرفی کی وجہ؟

جب سے مصباح الحق پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ بنے ہیں قومی کرکٹ ٹیم کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچزمیں کارکردگی خراب سے خراب ترین ہورہی ہے۔ اپنی پہلی سیریز میں انہوں نے کامیاب کپتان سرفراز احمد کو ایک ایسی ٹیم چن کر دی جس میں آؤٹ آف فارم احمد شہزاد اور عمر اکمل شامل تھے۔ پھر سیریز کی شکست کے بعد اس کارکردگی پر سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹایا۔ پھر آسٹریلیا ایک ایسی ٹیم لے گئے جو ناتجربہ کار تھی اور جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو ایک ایسا نائب کپتان بنادیا جس کو ابھی آئے ہوئے چند ہی سال ہوئے ہیں۔

یہ مانا کہ شاداب خان نے پی ایس ایل کے چوتھے اور پانچویں سیزن میں جارحانہ کپتانی کی لیکن کیا نائب کپتانی کسی ایسے شخص کو نہیں دینا چاہئے تھے جس کے پاس تجربہ ہو اور جو کوئی ٹرافی بھی جیت چکا ہو۔

عماد وسیم کے پاس تجربہ بھی تھا اور وہ پی ایس ایل کی ٹیم کے کپتان بھی تھے۔ پہلے تو انہیں کپتان بنانا چاہئے تھا اور اگر نہیں بنایا تھا تو جب سب زخمی تھے تو انہیں کپتان بنادیتے نا کہ ان فٹ شاداب کو کھلاتے۔ اسی وجہ سے پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ کی سیریز کے پہلے 2 میچز ایسے ہاری جیسے کوئی کلب کی ٹیم کھیل رہی ہو۔ اور جب سیریز ہار گئے تو تیسرا میچ ورلڈ چیمپینز کی طرح جیتا۔

یہ بھی پڑھیے

محمد عامر کی یادگار پرفامنسز

کرکٹ اسٹیڈیم

مصباح الحق کی بطورکوچ کارکرگی

مصباح الحق کی دوران کوچنگ پاکستان ٹیم نے 17 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے جس میں اسے 6 میں کامیابی، 8 میں ناکامی اور 1 میچ بے نتیجہ رہا۔ 6 کامیاب میچز میں سے 3 زمبابوے کے خلاف تھے وہ بھی ہوم گراؤنڈ پر۔ اگر سیریز کی بات کریں تو سری لنکا سے ہوم سیریز 3 صفر سے ہارے۔ آسٹریلیا سے آسٹریلیا میں 2 صفر سے شکست ہوئی، بنگلا دیش کو گھر بلا کر 2 صفر سے ہرایا۔ انگلینڈ جاکر سیریز اس لئے برابر رہی کیونکہ ایک میچ بے نتیجہ رہا۔ جبکہ زمبابوے کی سیریز کا حال تو سب کو یاد ہے۔

 اور تو اور مسلسل وہاب ریاض کو خراب کارکردگی کے بعد منتخب کرنا، عامر یامین اور زاہد مقصود کی جگہ فہیم اشرف اور افتخار احمد کو چانس دینا اور محمد عامر جیسے بالر کو شامل نا کرنے کے بعد مصباح الحق کی مقبولیت میں زبردست کمی آئی۔

جس کے بعد کسی بھی فارمیٹ میں ان کا کوچ رہنا نہیں بنتا تھا۔ فرینچائز مالکان پاکستان کرکٹ بورڈ سے زیادہ دور اندیش نکلے اور مکمل تباہی سے پہلے ہی خود کو بچالیا۔ لیکن کیا پی سی بی یہ درست فیصلہ جلد کرے گا؟ یا ہمیشہ کی طرح دیر کردے گا؟ اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔

کیا مصباح کو آخری 2 سیزن میں خراب کارکردگی پر نکالا؟

اسلام آباد یونائیٹڈ کے آخری 2 سیزن صرف برے ہی نہیں بہت برے گزرے۔ ایک میں تو کوچ ڈین جونز تھے اور دوسرے میں مصباح الحق۔ چوتھے سیزن میں جب ڈین جونز ٹیم کے ہیڈ کوچ تھے اور محمد سمیع مستقل کپتان تو ٹیم نے پلے آف میں جگہ بنائیگ 12 میں سے 6 میچ جیتے اور اتنے ہی ہارے۔ ان میں سے 3 میچوں کی قیادت شاداب خان نے کی تھی۔ 2 میچ جیت کر انہوں نے فرینچائز مالکان کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے آگاہ کردیا۔

 شاید اسی لئے شاداب خان کو پی اسی ایل 2020 میں باقاعدہ کپتان بنایا گیا۔ جس میں وہ 9 میں سے صرف 3 میچز ہی ٹیم کو جتوا سکے۔ 6 میچز میں ناکامی کی وجہ سے 2 بار کی فاتح ٹیم نے ایونٹ کا اختتام چھٹی پوزیشن پر کیا۔

کوچ مصباح الحق نے پورا سیزن ٹیم کی باگ دوڑ سنبھالی اور پاکستان ٹیم کا کوچ ہونے کے باوجود  ان کی ناقص حکمت عملی فرینچائز ٹیم کو لے ڈوبی۔ یہ بھی ان کو فارغ کرنے کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم
PCB

کیا مصباح الحق کے ہیڈ کوچ بننے کی وجہ سے فرق پڑا؟

جب مصباح الحق کو پاکستان کرکٹ کا ہیڈ کوچ بنایا گیا تو ساتھ ہی ساتھ چیف سلیکٹر اور بیٹنگ کوچ کی بھی ذمہ داری دے دی گئی۔ لیکن ٹیم کی مسلسل خراب کارکردگی کی وجہ سے پہلے ان کے ہاتھ سے بیٹنگ کوچ کی پوسٹ گئی۔ اور پھر چیف سلیکٹر کی اور اب وہ ‘سب کچھ مصباح ‘ سے صرف ‘ہیڈ کوچ مصباح’ ہیں۔ جو حالات نظر آرہےہیں اس کے بعد چند دنوں میں وہ شاید ‘سابق ہیڈ کوچ مصباح’ ہوں۔ ایک طرف یہ سب ہورہا ہو اور فرینچائز مالکان چپ رہیں یہ تو ہو نہیں سکتا اسی لئے شاید ان کواپنی پی ایس ایل پوسٹ سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

کیا کوچ مصباح الحق کی غیر سنجیدگی جانے کی وجہ بنی؟

جب تک مصباح الحق پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ منسلک تھے ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا۔ ان کی اور یونس خان کی مشترکہ ریٹائرمنٹ کے بعد ‘مس یو’ کے نام سے ٹرینڈ بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر چلتا رہا۔

لیکن پھر مصباح الحق نے اپنی کمائی ہوئی عزت کو مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اور وکٹ دیکھے بغیر  بیٹنگ  کو ترجیح دی۔ یہیں وہ سب سے بڑی غلطی کرگئے اور انہوں نے آتے ہی کچھ ایسے فیصلے کئے جو اگر ان کی کپتانی میں کوئی اور کوچ کرتا تو وہ اس کی زندگی اجیرن کردیتے۔

مصباح کی کھلاڑیوں کی سلیکشن

یہ مصباح الحق ہی تھے جنہوں نے اس عمر اکمل اور اس احمد شہزاد کو چنا تھا۔ جنہیں بے انتہا خراب کارکردگی پر ٹیم سے کئی بار نکالا جاچکاتھا۔ مصباح نے ان دونوں ناکام کھلاڑیوں کو نہ صرف بغیر کسی پرفارمنس کے چنا بلکہ ٹاپ آرڈر میں بھی کھلایا۔ جب سرفراز احمد کی کپتانی میں ٹیم ہاری تو بجائے اپنی غلطی ماننے کے سرفراز احمد ہی کو فارغ  کردیا۔

کیا بہتر ہوتا اگر مصباح الحق کسی نوجوان کھلاڑی کی کپتانی دیکھ کر اسے قیادت سونپتے لیکن انہوں نے ایک سابق کپتان کے ہاتھ میں ٹیم کی باگ دوڑ دے دی جوایک بار قیادت کے میدان میں فیل ہو کر سابق کپتان بن چکا تھا۔

اظہر علی کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے بنگلا دیش سے ون ڈے سیریز ہاری تھی۔ جبکہ ٹیسٹ میں وہ کوئی خاطر خواہ کپتانی نہیں دکھا سکے تھے۔ پھر بھی ان کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان نامزد کرنا ایک ایسا مذاق تھا جو پاکستان قوم کے ساتھ کیا گیا۔

جب انگلینڈ کے خلاف سیریز میں اظہر علی کی کپتانی کی قلعی کھل گئی تو ان کی جگہ مصباح الحق نے بابراعظم کو تینوں فارمیٹ کا کپتان بنادیا۔ یہ سب کچھ دو چار سال میں نہیں بلکہ 2 سال سے بھی کم عرصے میں اس قومی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہوا جو مسلسل 11 سیریز کی فاتح رہ چکی تھی۔

جس نے 2017 میں آئی سی سی چیمپینز ٹرافی جیتی۔ جو2019 کےورلڈ کپ میں صرف رن ریٹ کی وجہ سے سیمی فائنل میں جگہ نہ بناسکی۔ ایسی ٹیم کو اوپر سے نیچے لانے والے شخص کے ساتھ کیا ہونا چاہئے یہ اسلام آباد ہونائیٹڈ کو تو معلوم ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کو نہیں۔

متعلقہ تحاریر